لال تایا ابا

نانا کا گھر خالہ کی شادی میں شرکت کرنے آئے ہوئے رشتے داروں سے بھرا ہوا تھا کافی سارے لوگ شادی میں شرکت کرنے دوسرے شہروں سے بھی آئے تھے جنہوں نے چھت پر بنے کمروں اور صحن میں ڈیرا ڈالا ہوا تھا۔ گھر میں سارا دن کیرم بورڈ، لوڈو کی بازیاں لگتیں، بچے چھپن چھپائی کھیلتے، لڑکیاں مہندی لگانے کی مشق کرتیں اور بزرگ گپیں لگاتے اور اپنے جوانی کے قصے سناتے۔ رات کے وقت نانا کا گھر کسی ریلوے اسٹیشن کا منظر پیش کرتا تھا جسکو جہاں جگہ ملتی سو جاتا تھا۔ رفع حاجت کے لئے بھی اکثر اگلے بندے کے باہر آنے کا انتظار کر نا پڑتا تھا۔ نانا کے گھر میں صبح سے رونق تھی کیونکہ آج خالہ کی شادی کی تقریب ہونی تھی نانا اور خاندان کے بڑے بزرگ بیٹھے شام کے پروگرام کے انتظامات کا جائزہ لے رہے تھے کے اچانک گلی سے بچوں کے شور کرنے اور لوگوں کے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں سب نے باہر نکل کر دیکھا تو ایک کھچڑی داڑھی والے بزرگ نما ہٹے کٹے شخص واحد ماموں کی پٹائی کررہے ہیں اور واحد ماموں پٹائی کھاکر بھی ہنس رہے ہیں۔ نانا نے فوراً جاکر واحد ماموں کو ان شخص سے چھڑایا اور ہنستے ہوئے بولے نور محمد کیا ہوا کیوں مار رہے ہو کیا اس نے تمہیں لال تایا ابا تو نہیں بول دیا جو تم اسے مار رہے ہو ؟ یہ میرا پہلا تعارف تھا نور محمد عرف لال تایا ابا سے ۔ کسی کو نہیں پتا تھا لال تایا ابا کہاں رہتے ہیں مگر ہر اہم موقعے اور شادی بیاہ کی تقریبات میں وہ اچانک سے آموجود ہوتے اور لوگ انکی پر بہار شخصیت سے بہت محضوض ہوا کرتے۔ کبھی کوئی کسی بہانے سے لال رنگ کی تعریف شروع کر دیتا اور لال تایا ابا غصے میں آ کر اسکی پٹائی کردیتے اور پٹنے والے سمیت سب لوگ ہنستے ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجاتے ۔ یہ بات کبھی نہیں معلوم ہوسکی کے لال تایا ابا کو لال رنگ سے اتنی چڑ کیوں تھی ناہی لوگوں کے اصرار کرنے پر کبھی انہوں نے اسکی وجہ بتائی ۔ لال تایا ابا بچوں سے بہت پیار کرتے اور شفقت سے پیش آتے۔ لال تایا ابا کے بس تین شوق تھے انکا پہلا شوق میٹھے چاولوں کا زردہ تھا جسے وہ بہت شوق سے کھاتے تھے لوگوں سے شرط لگا کر پیٹ بھر کر کھانا کھانے کے بعد بھی وہ میٹھے چاولوں کا پورا تھال کھالیتے تھے اور لوگ انکو کھاتے دیکھ کر حیران رہ جاتے کے وہ کس پیٹ میں یہ چاول کھارہے ہیں ۔ انکا دوسرا شوق کھانے کے فوراً بعد پان کھانا تھا یہی وجہ تھی کے انکی جیب میں پان ہر وقت موجود رہتا تھا۔ انکا تیسرا شوق جو عشق کی حد تک تھا وہ یہ کہ مسجد سے آذان کی آواز سنتے ہی وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوجاتے اور انکے قدم مسجد کی طرف چل پڑھتے تھے۔ کیسی بھی دلچسپ محفل جمی ہو یا وہ کسی بھی کام میں مصروف ہوں باقی تمام چیزیں اس وقت انکے لئے بے معنی ہوجاتی تھیں وہ سر جھکا کر وضو کرتے سر پر صافہ باندھ کر کائنات کے بادشاہ کے دربار میں حاضری دینے چل پڑھتے۔ میری اور میرے بھائیوں کی نئے سال کی کتابوں اور کاپیوں پر گتے کی جلد بناکر انکو دیدہ زیب اور مضبوط کردیتے اور انکو کبھی بلانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی وہ خود ہی سال کے شروع میں آموجود ہوتے اور مہارت سے جلدیں چڑھادیتے۔ تب مجھے پتا چلا کے لال تایا ابا کتابوں کی جلد سازی کا کام کرتے ہیں۔ جب لال تایا ابا ہماری کتابوں پر جلد سازی کرتے میں انکے پاس بیٹھ کر دیکھتا رہتا تھا کہ وہ کس مہارت سے یہ کام کرتے ہیں۔ اس دور میں پی ٹی وی پر ڈراموں کا بہت دور تھا لوگ ہر کام چھوڑ کر رات آٹھ سے نو بجے تک ڈرامے ضرور دیکھا کرتے تھے ۔ لال تایا ابا کے سامنے کتنا بھی دلچسپ ڈراما چل رہا ہوتا لیکن ایسا لگتا تھا وہ ڈراما نہیں دیکھ رہے ہیں یا کچھ سوچ رہے ہیں ۔ ایک دن میں نے باتوں میں پوچھ ہی لیا کہ کیا انکو ٹی وی دیکھنے کا شوق نہیں؟ تو کہنے لگے میرے پاس ٹی وی نہیں ناہی مجھے ٹی وی کا شوق ہے ۔ پھر کہنے لگے ہمارے نوجوانی کے زمانے میں لوگوں کو فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا تو ایک بار انکے بڑے بھائی نے انکو پاکستان بننے سے پہلے دہلی شہر کے سینما میں لیجاکر "عالم آرا” فلم دکھائی تھی مگر اسکے بعد انہوں نے کبھی سینما میں قدم نہیں رکھا۔ ایک دن میں نے پوچھا آپکی بیوی بچے کہاں ہیں تو کہنے لگے میں اکیلا کراچی میں رہتا ہوں بیوی اور بچے حیدرآباد میں رہتے ہیں ۔ میرے دو بیٹے ہیں جو دودھ کا کاروبار کرتے ہیں اور اچھا کماتے ہیں ۔ تو میں نے پوچھا پھر آپ اپنی بیوی اور بیٹوں کے ساتھ کیوں نہیں رہتے وہ آپکی خدمت کرینگے اور آپ آرام سے انکے ساتھ رہینگے ۔ کچھ دیر چپ رہے پھر کہنے لگے میرے بیٹے دودھ میں پانی ملاتے ہیں جسکی وجہ سے میں انکی کمائی کو حلال نہیں سمجھتا حالانکہ لوگ میرے بیٹوں کی دکان کے دودھ کی بہت تعریف کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انکا دودھ خالص ہے مگر مجھے تو اصل بات کا پتا ہے اسہی لئے میں اپنے بیٹوں سے کوئی بھی پیسا نہیں لیتا اور جب انسے ملنے جاتا بھی ہوں تو اپنی محنت کی کمائی سے اپنے کھانے پینے پر خرچ کرتا ہوں جس پر وہ مجھ سے بہت ناراض ہوتے ہیں اور میری بیوی بھی مجھ سے اس بات پر لڑتی ہے ۔ یہ بات سنکر میں بہت حیران ہوا اور انکے ایمان کی مضبوطی سے بہت متاثر ہوا۔ لال تایا ابا کے سینے میں اکثر خر خر کی آوازیں آنے لگیں وہ وقت کے ساتھ بہت کمزور ہوگئے تھے پھر پتا چلا انکو ٹی بی ہو گئی ہے مگر سخت سردیوں میں بھی وہ ٹھنڈے پانی سے وضو کرکے نماز پڑھنے مسجد جانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ سخت بیمار ہوگئے اور اسپتال میں داخل کردیے گئے انکے بیٹوں اور بیوی کو اطلاع ملی تو وہ انکو اپنے ساتھ زبردستی حیدرآباد لے گئے جہاں چند دنوں بعد ہی وہ کائنات کے بادشاہ کے مستقل مہمان بن کر اسکی جنتوں کی طرف چلے گئے ۔ لال تایا ابا کا جب بھی خیال آتا ہے ایک احساس شدت سے ہوتا ہے کے وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے ولی تھے اور اپنے رب کے دین کو نہایت مظبوطی سے تھامے ہوئے تھے۔ انہوں نے دنیا کی عارضی زندگی انتہائی سادگی کے ساتھ گزاری ایک مسافر کی طرح اس دنیا سے چلے گئے۔ آج کے نفسا نفسی کے دور میں ایسی ایمان کی مضبوطی والے لوگ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملینگے ۔

حاضری

بس ڈرائیور نے مجھے اشارہ کیا کہ اسکے ساتھ والی سنگل سیٹ پر بیٹھ جائوں۔ میری فیملی بس کی پچھلی سیٹوں پر پہلے ہی ایڈجسٹ ہوچکی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ کہاں بیٹھوں۔ میں نے بھی پیشکش کو غنیمت جانا اور فوراً اسکے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ جرمنی کی مرسڈیز کمپنی کی بنی ہوئی بس بہت آرام دہ تھی مگر بس آرام دہ نا بھی ہوتی تو بھی کوئی بات نہیں جب سفر کائنات کی مقدس ترین ہستی سرور کونین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے در اقدس کی حاضری کا ہو تو کیسا آرام ۔

ڈرائیور کا تعلق پنجاب کے کسی علاقے سے تھا ڈرائیور کے پیچھے ایک دیہاتی حلئے کی بوڑھی خاتون بیٹھی تھیں اور وہ بار بار پنجابی میں اس سے پوچھ رہی تھیں کے مدینہ الرسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے آنے میں کتنا وقت اور لگے گا جواب سنکر وہ پھر سے درود شریف پڑھنے میں مصرف ہوجاتیں ۔ پھر کچھ دیر کے بعد ڈرائیور کو یاد دلاتیں کے جیسے ہی بس مدینہ منورہ میں داخل ہو وہ انھیں بتادے۔ ڈرائیور انکو پنجابی میں تسلی دیتا اور پھر مجھ سے باتوں میں مصروف ہوجاتا۔ وہ ڈرائیونگ کے دوران ہونے والے دلچسپ قصے سنائے جارہا تھا اور میں سر ہلا ہلا کر اسکی باتیں سن رہا تھا ساتھ ہی دل ہی دل میں درودشریف پڑھ رہا تھا۔
جب بس مدینے کی چیک پوسٹ پر پہنچی تو ڈرائیور نے مجھے کہا کہ ہم مدینے میں داخل ہو رہے ہیں ۔ میں نے اس سے کہا سارے مسافر اسہی انتظار میں ہیں لہذا وہ بس کے مائیک سسٹم پر سب کو یہ بات بتادے مگر اسکو مائیک پر بولنے میں جھجھک ہورہی تھی۔ وہ مجھ سے کہنے لگا آپ بول دو اور پھر اسنے مائیک آن کرکے مجھے دیدیا۔

میں بولتا چلا گیا ، اسلام علیکم الحمداللہ ہم لوگ مدینے کی حدود میں داخل ہورہے ہیں آپ سب مدینے میں داخل ہونے کی دعا پڑھ لیں اور دربار رسالت میں درود شریف کا نذرانہ پیش کردیں ۔

اعلان کے بعد ایسا لگا کہ پوری بس کی فضا تقدس سے لبریز ہوچکی ہو ہر مسافر کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور لبوں پر درود و سلام کے نزرانے تھے۔ میں نے پلٹ کر بوڑھی خاتون کی طرف دیکھا تو مجھے لگا وہ بوڑھی خاتون تو جیسے دربار رسالت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم میں حاضر ہوچکی تھیں انکی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور وہ ہاتھ اٹھا کر کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے درود و سلام کے نزرانے پیش کررہی تھیں۔ مجھے اپنا جذبہ اس وقت بہت حقیر لگا میرے دل سے دعا نکلی کے کاش مجھے ان دیہاتی بوڑھی خاتون کے عشق رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا ایک ذرہ بھی نصیب ہو جائے تو میرا نام بھی عاشقان رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی فہرست میں شامل ہو جائے ۔

بینک بیتیاں- روحانیت اور سلمان (چوتھا اور آخری حصہ)

جمعہ کے دن میں برانچ سے نکل کر ریجنل آفس پہنچا اور سلمان کو کال کی تو وہ باہر آگیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہاں چلنا ہے تو اس نے شہر کے ایک مشہور شاپنگ ایریا کے کارنر میں بنی مسجد کی طرف چلنے کا بولا۔ میں اس مسجد کے سامنے سے اکثر گزرتا تھا مگر کبھی اس مسجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا ۔ جب ہم مسجد کے سامنے پہنچ گئے تو سلمان نے میری طرف غور سے دیکھا اور کہا یہ کوئی عام مسجد نہیں ہے اور اس مسجد کو حرمین جیسی خصوصیت حاصل ہے ۔ یہ بات میں نے سن تو لی مگر یقین نا کرسکا ۔ سلمان نے اپنی بات جاری رکھی کہنے لگا اس مسجد میں ہر جمعہ کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوتی ہے اور اسہی لئے اسکی کوشش ہوتی ہے کہ جمعہ کی نماز جیسے بھی ممکن ہو اسی مسجد میں ادا کروں ۔
ہم دونوں مسجد میں داخل ہو گئے میں وضو کے لئے آگے بڑھا تو سلمان کہنے لگا تم وضو کرو میں ابھی آتا ہوں ۔ وضو کرنے کے بعد میں مسجد کے صحن میں آکر سنتیں پڑھنے کھڑا ہوگیا ۔ سنتیں پڑھنے کے دوران سلمان بھی میرے برابر میں آکر سنتیں پڑھنے لگا ۔ سنتوں سے فارغ ہوکر میں بیٹھ گیا تو سلمان نے میرے کان میں کہا کہ اس مسجد میں نہایت ادب سے بیٹھوں کیونکہ ہر مسجد اللہ کا گھر ہے مگر اس مسجد کی اہمیت اور مقام جدا ہوتا ہے ۔
اسی اثناء میں جمعے کی خطبے سے پہلےوالی اذان شروع ہو گئی ۔ اس اذان میں پتا نہیں کیا بات تھی ایسے لگا جیسے میری روح کو کسی نے جھنجھوڑ دیا ہو میں نے آنکھیں بند کرلیں اور میرا وجود اذان کی آواز کے ساتھ ہلکا ہونا شروع ہوگیا۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ میرا وجود اذان کی آواز کے ساتھ ساتھ اوپر اٹھتا جارہا ہے مجھے بند آنکھوں سے اپنے نیچے بادل اڑھتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ اذان جب ختم ہوئی تو میرا وجود واپس اپنی جگہ پر آچکا تھا۔ اذان ختم ہونے کے بعد میں نے اپنی آنکھیں کھولیں تو مجھے خیال آیا کہ اگرچہ یہ بہت منفرد تجربہ تھا مگر یہ محض میرا خیال تھا ۔ ابھی میں یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ سلمان نے میرے کان میں کہا کہ اذان کی آواز کے ساتھ بادلوں میں اڑھتے ہوئے کیسا لگا ؟ میں چونک گیا سلمان کو یہ بات کیسے پتا چلی کہ میں اپنے آپ کو بادلوں میں اڑھتا ہوا محسوس کررہا ہوں۔ مجھے خیال آیا شاید سلمان کو بھی ایسا محسوس ہوا ہو۔
اسکے بعد نماز ہوئی اور دعا کے بعد سلام پڑھا جانے لگا سلمان نے میرا ہاتھ پکڑا اور مسجد کے اندرونی ہال میں لے آیا اس وقت تک زیادہ تر نمازی جاچکے تھے اور کوئی تیس چالیس کے قریب لوگ موجود تھے ۔ میں بھی مدھم آواز سے سلام پڑھنے لگا جیسے ہی سلام ختم ہوا سلمان نے مجھے اشارہ کیا کہ چلو واپس چلتے ہیں۔ سلمان پلٹ کر واپس جانے کیلئے مڑا ہی تھا کہ میرے اندر ایک بھونچال آگیا میں سلمان کو روکنا چاہتا تھا اور اسے بتانا چاہتا تھا کہ مجھے رونا آرہا ہے میرے منہ سے بس سلمان کا نام ہی نکل سکا اور میں پھوٹ پھوٹ کر با آواز بلند بچوں کی طرح رونے لگا سلمان نے میری طرف پلٹ کر دیکھا تو اسکے چہرے پر ایک شفقت بھری مسکراہٹ تھی اس نے مجھے سینے سے لگا لیا اسکے منہ سے اللّٰہ سبحانہ وتعالٰی کی شان میں کلمات ادا ہورہے تھے ۔ میری کیفیت یہ تھی کہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیوں دھاڑیں مار کر رو رہا ہوں لوگ مجھے پلٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے ۔ اس وقت میرا وجود دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ایک وجود بس روئے جارہا تھا اور دوسرا وجود اس کے ساتھ کھڑا حیران ہو رہا تھا کہ میں کیوں رو رہا ہوں جبکہ رونے کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے نا ہی مجھے کوئی غم ہے ۔ دوسرا وجود پہلے وجود کو سمجھا رہا تھا مگر پہلا وجود بس روئے جارہا تھا اسکو اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کے سب لوگ اسے دیکھ رہے ہیں ۔ سلمان نے کچھ دیر مجھے رونے دیا پھر میرا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آیا اب میں دھیمی آواز سے روئے جارہا تھا۔ سلمان نے کہا چلو واپس چلیں۔ واپسی میں بھی میں گاڑی چلاتے ہوئے روئے جارہا تھا اور دل ہی دل میں پریشان تھا کہ میں اس حالت میں برانچ واپس کیسے جائوں گا۔
رینجل آفس کے سامنے پہنچ کر سلمان خاموشی سے اتر گیا میں نے جیسے ہی گاڑی واپس برانچ جانے کیلئے أگے بڑھائی میرے رونے کو بھی بریک لگ چکا تھا ۔

اس واقعے کے بعد میں نے تقریباً دو ہفتے سلمان کو فون نہیں کیا۔ ایک دن کچھ کام کے سلسلے میں میری ریجنل آفس میں بات ہورہی تھی تو مجھے معلوم ہوا کہ سلمان بینک کی جاب چھوڑ کر چلا گیا ہے ۔ میں نے فوراً سلمان کے موبائل نمبر پر کال کی تو اسکا نمبر بند جارہا تھا۔ سلمان کا اور تو کوئی دوست نہیں تھا آصف کو بھی اسکے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ میں نے سلمان کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر اسکا کوئی سراغ نہیں ملا۔ کچھ عرصے کے بعد معلوم ہوا سلمان ملک سے باہر چلا گیا ہے مگر یہ نہیں پتا کس ملک گیا ہے ۔

مجھے نہیں پتا سلمان روحانیت میں کس مقام پر تھا یا کسی مقام پر تھا بھی کہ نہیں مگر میں نے جو وقت سلمان کے ساتھ گزارا اور زندگی کے کچھ تجربات ہوئے ان سے میرا زندگی کو گزارنے کا طریقہ ضرور بدل گیا۔ آج بھی جب میں ان گزری ہوئی باتوں کو سوچتا ہوں تو خواب و خیال کی باتیں لگتی ہیں۔

اختتام۔۔۔۔۔۔

بینک بیتیاں- روحانیت اور سلمان (تیسرا حصہ)

نائب صاحب کے رویئے کے بعد میرا ذکر میں جانا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ میں ہمت کرکے تیسرے ہفتے بھی بینک کے بعد ذکر میں شرکت کے لئے پہنچ گیا۔ ذکر کرتے ہوئے ذاکرین کو کرنٹ سا لگتا اور کچھ لوگ تو لوٹ پوٹ ہوجاتے یہ سب مجھے بہت عجیب لگتا تھا ۔ ذکر کے دوران میری کیفیت تو کچھ بھی نہیں ہوتی تھی۔ اس دن بھی بس اپنے پیروں کو ہلا ہلا کر جگانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا کہ اچانک ان صاحب نے میری طرف اپنی انگلی سے اشارہ کیا۔ دوران ذکر وہ کسی کی طرف اشارہ کرکے اپنے پاس بلالیتے اور اپنے سامنے دوزانو بٹھا کر توجہ دیتے تھے۔ مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ میرے پیر اتنے زیادہ سن ہوچکے ہیں کے میں کھڑا نہیں ہوسکتا لہذا کھڑے ہونے کی کوشش کی تو ایسا محسوس ہوا میرے وجود میں ٹانگیں نہیں لگی ہیں اور میں دھڑام سے زمین پر گرگیا میرے گرنے کی آواز سے سب چونک پڑے اور پھر میرے پاس بیٹھے دو افراد نے مجھے ملکر اٹھایا تو میں کھڑا ہوسکا ۔ شدید شرمندگی اور بے بسی کی لہر میرے جسم اور دماغ میں دوڑ گئی۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے پھر میری طرف اشارہ کیا تو میں بہت احتیاط سے پہلے سیدھا اپنے قدموں پر کھڑا ہوا اور انکے پاس جاکر دوزانو بیٹھ گیا ۔ حسب معمول انہوں نے میرے قلب پر توجہ دی مگر اس دفعہ بھی کوئی کیفیت قلب میں محسوس نہیں ہوئی۔ ذکر کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو ان صاحب نے میری طرف دیکھ کر کہا اگلی جمعرات بارہ ربیع الاول ہے ذکر میں ضرور تشریف لائے گا ۔
اگلی جمعرات بارہ ربیع الاول کے دن شہر کے مرکزی جلوس میں ایک بہت بڑا بم دھماکہ ہوا اور کئی علماء اسمیں شہید ہوگئے جسکے بعد شہر میں کئے دنوں تک حالات خراب رہے ۔ میرا جانا پھر ذکر میں نہیں ہوسکا ویسے بھی میں اپنے آپ کو ذکر کی محفل میں ایڈجسٹ نہیں کر پارہا تھا۔
میں نے سلمان کو فون کرکے ساری بات بتادی اور اپنے ذکر میں نا جانے کا بھی بتا دیا ۔ سلمان کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ میں اب وہاں نہیں جانا چاہتا ہوں ۔ سلمان نے مجھے کہا کہ میں قرآن مجید ترجمے کے ساتھ پڑھوں اور اسنے مجھے ایک سورت پڑھنے کے لئے بتائی اور کہا اسکو ترجمہ کے ساتھ سمجھ کر پڑھوں اور دوسرے دن میں اسکو فون کرکے بتائوں کہ میں اس سورت کو پڑھکر کیا سمجھا ہوں ۔
میں پہلے قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے ترجمہ پر بھی نظر ڈال لیتا تھا مگرکبھی بھی قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور اسکے معنی پر غور کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ پہلی دفعہ میں نے قرآن کی سورت کا ترجمہ بغور پڑھا اور سمجھا اور اسکے پوائنٹس بنائے جو میں نے سلمان کو بتانے تھے ۔ میں نے جب سلمان کو بتایا کہ میں اس سورت سے کیا سمجھا ہوں تو پھر اس نے ان میں کچھ اور باتیں بھی بتائیں جو میں خود سے نہیں سمجھ سکا تھا ۔ اسہی طرح سلمان نے مجھے دو تین قرآن کی سورتیں پڑھائیں۔

ایک دن سلمان نے مجھے فون کرکے کہا کے اسنے مجھے خواب میں دیکھا ہے کہ میں کسی درمیانی عمر کی خاتون کو لیکر اسکے پاس آیا ہوں ۔ میں نے ان خاتون کا حلیہ پوچھا تو مجھے اس حلئیے کی کوئی خاتون یاد نہیں آئیں۔ سلمان نے کہا ایک خاص بات ہے کے میں خواب میں ان خاتون کی مدد کر رہا ہوں کیا حقیقی زندگی میں ایسی کوئی بات ہے مگر میں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں نا ہی میں کسی خاتون کی مدد کر رہا ہوں ۔ کئی برسوں بعد سلمان کا خواب پورا ہوگیا اور اسہی حلئیے کی خاتون سے ملاقات ہوئی اور ایسا سلسلہ بنا جس میں انکی مدد میں میرا حصہ بھی شامل ہوگیا ۔

ایک دن سلمان نے مجھے فون کیا اور پوچھا میں جمعہ کی نماز کہاں پڑھتا ہوں تو میں نے اسے بتایا کہ برانچ کے پاس ایک مسجد میں پڑھتا ہوں ۔ کہنے لگا اس جمعہ کو میں بینک کے ریجنل آفس سے اسے پک کرلوں وہ مجھے کوئی خاص مسجد میں جمعہ کی نماز کیلئے لے جانا چاہتا ہے۔ مگر یہ بات کسی سے نہیں کرنی ہے ۔ میں بینک کے باہر آکر اسے کال کرلوں وہ ریجنل آفس کے باہر آجائے گا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بینک بیتیاں- روحانیت اور سلمان (دوسرا حصہ)

پیر سے مجھے دوسری برانچ میں جوائننگ دینی تھی اسلئے سلمان سے میری فون پر تفصیلی بات ہوئی۔ میں بیعت کیلئے بالکل بھی تیار نہیں تھا یہ بات میں نے سلمان کو بتادی اور یہ بھی بتایا کہ نائب صاحب نے میری پوری رپورٹ نکال کر ان صاحب کو پیش کی ہے جس سے مجھے بہت شرمندگی ہوئی اور مجھے لگا کہ کسی کے عیوب اس طرح موجودگی میں ڈسکس نہیں کرنے چائیے ہیں سلمان اس بات کو سنکر خاموش ہوگیا۔ کہنے لگا تم پھر بھی کوشش کرکے انکے ذکر میں شرکت کرو مجھے یقین ہے تمہیں بہت فائدہ ہوگا اور ان صاحب کے حلقے میں بہت جلد روحانی ترقی ملتی ہے ۔ میں نے سلمان سے پوچھا آپ کیوں ان صاحب کے ذکر میں شرکت نہیں کرتے تو کہنے لگا میری بات چھوڑو میرا معاملہ دوسرا ہے اور تمہیں یہ بات ابھی سمجھ نہیں آئے گی ۔
اگلے ہفتے میں بینک کے بعد سیدھا انکی مسجد میں پہنچ گیا ابھی عشاہ کی نماز میں کافی دیر تھی میں مسجد میں وضو کرکے بیٹھ گیا اور درود شریف پڑھنے لگا۔ اذان کے بعد عشاہ کی نماز ہوئی اور پھر ذکر شروع ہوگیا۔ ان صاحب نے مجھے اشارے سے پاس بلایا اور ذکر خفی کا طریقہ بتایا۔ سلطان باہو کی کافی” الف اللّه چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہو” ٹیپ ریکارڈر پر چلنا شروع ہو گئی اور سب دل میں اسم ذات کا ذکر کرنے لگے کچھ ہی دیر میں میرے پیر سن ہوگئے اور باقی کے ذکر میی اپنے پیروں کو ہلا ہلا کر جگاتا رہا ۔ نائب صاحب مجھے بار بار کچھ اچھی نظروں سے نہیں دیکھ رہے تھے ۔ ذکر کے بعد چائے کا دور ہوا اور مٹھائی کھلائی گئی۔ میں نے سر سے ٹوپی اتار کر جیب میں رکھ لی تھی اچانک کسی نے میرے سر پر ٹوپی رکھ دی پلٹ کر دیکھا تو نائب صاحب کھڑے تھے کہنے لگے مرشد کے سامنے سر کبھی ننگا نہیں کرتے۔
اگلے جمعرات میں پھر بینک سے ذکر کیلئے پہنچ گیا باقی سب کچھ ویسا ہی تھا تمام ذکر میں توجہ پیروں کو جگانے پر مرکوز رہی باقی ذکر کا کچھ نہیں پتا چلا۔ ذکر کے بعد گفتگو کا سلسلہ چل رہا تھا تو میں گفتگو سننے کے ساتھ دل میں درود شریف پڑھ رہا تھا اچانک ان صاحب نے میری طرف غور سے دیکھا اور سر ہلایا مجھے ایسا لگا جیسے کہہ رہے ہوں شاباش اچھا کررہے ہو۔ وہ صاحب جب اٹھکر چلے گئے لیکن میں نے اس دفعہ ٹوپی سر سے نہیں اتاری کیونکہ میں پچھلے ہفتے والے واقعےکو بھولا نہیں تھا اسی اثناء میں ایک ذاکر سے باتیں کرنے لگا تو اچانک کسی نے پیچھے سے کندھوں کو پکڑ کر میرا رخ پھیر دیا پلٹ کر یکھا تو نائب صاحب کھڑے تھے کہنے لگے مرشد کی طرف پیٹھ نہیں کرتے میں نے بولا صاحب تو جا چکے ہیں تو نائب صاحب بولے مرشد اس وقت ہجرے میں تشریف فرما ہیں اور آپکی پیٹھ ہجرے کیطرف تھی۔
میرے اندر ایک غصہ اور جھنجھلاہٹ کی کیفیت طاری ہوگئی کہ یہ نائب صاحب اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں پہلے مجھ سے پوچھے بغیر میری رپورٹیں نکالتے ہیں جو کے اخلاقی طور پر غلط بات ہے پھر ذکر میں گھوریاں مار تے ہیں کبھی زبردستی سر پر ٹوپی رکھ دیتے ہیں اور کبھی بغیر متوجہ کئے رخ موڑ دیتے ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بینک بیتیاں- روحانیت اور سلمان

بینک کے ریجنل مینیجر صاحب بڑی شاندار شخصیت کے مالک تھے ۔ یقین مانئے ان جیسی شاندار شخصیت اپنی پوری زندگی میں بہت کم دیکھنے میں آئی ہیں ۔ ریجنل مینیجر صاحب کے فلور پر انکے کمرے کے ساتھ سلمان کی ٹیبل تھی وہیں میری ملاقات سلمان سے ہوئی اور چند ملاقاتوں کے بعد ہی میری سلمان سے اچھی دوستی ہوگئی ۔ سلمان کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا یہاں تک کے ریجنل مینیجر صاحب کو بھی بغیر لگی لپٹی جواب دیتا تھا یہی وجہ تھی وہ سلمان کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ سلمان ایک کھاتے پیتے متمول گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ اسکو اپنی نوکری کی اتنی فکر نہیں تھی ۔
ریجنل آفس میں سلمان کی کسی سے کوئی خاص دوستی نہیں تھی سوائے آصف کے اور وہ اکثر آصف کے پاس بیٹھا نظر آتا تھا۔
سلمان کے اندر کوئی خاص بات تھی یہ بات میں نے چند ملاقاتوں میں ہی محسوس کرلی تھی اور اب مجھے اسکی کھوج لگ گئی تھی ۔ میں جب بھی کسی کام سے اسکے فلور سے گزرتا تھوڑی دیر سلام دعا کیلئے ضرور سلمان کے پاس رکتا تھا ۔ کچھ ہی عرصے میں مجھے اندازہ ہوگیا کہ سلمان کی شخصیت کے جس رخ کو میں کھوج رہا ہوں اسکا تعلق روحانیت سے ہے ۔ اور جب میں نے اس سے روحانیت کے موضوع پر بات کی تو اندازہ ہوا کہ وہ اسی روحانیت کی لائن میں اپنا سفر طے کر رہا ہے ۔مگر سلمان کبھی اپنی ذات کے متعلق کسی سوال کا جواب نہیں دیتا تھا بلکہ یہ کہہ کر بات بدل دیتا تھا کہ تم اپنی بات کرو اپنی جو الجھن ہیں سوال ہیں وہ بتائو شائد میں تمہاری اس سلسلے میں مدد کرسکوں ۔
ایک دن میں نے سلمان سے کہا کہ میں نے روحانیت پر کئی کتابیں پڑہی ہیں اور اب میں روحانیت کو قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں اور وہ اس سلسلے میں میری مدد کرے ۔ میرا خیال تھا کہ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر روحانیت تمام رازوں سے پردہ اٹھا دیگا اور میری روحانیت کے تجربے سے گزرنے کی خواہش پوری ہو جائے گی۔ مگر سلمان نے مجھے کسی صاحب سے بیعت کرنے کا مشورہ دیا جن کے پاس آصف بھی جاتا تھا۔ اب مجھے اندازہ ہوا سلمان کی پورے بینک میں صرف آصف ہی سے کیوں دوستی ہے ۔ سلمان نے آصف سے خود ہی بات کی اور جمعہ کے دن مجھے تیار رہنے کو کہا۔ آصف مجھے لیکر ایک مسجد میں گیا جہاں ایک صاحب جمعہ کی تقریر فرمارہے تھے اسکے بعد انہوں نے نماز پڑھائی اور دعا کے بعد مسجد کے کونے میں اپنے حجرے میں چلے گئے ۔ آصف نے میرا ہاتھ پکڑا اور حجرے میں لے گیا وہاں چند لوگ بیٹھے تھے اور ان صاحب کے ساتھ انکے کوئی نائب بھی بیٹھے تھے ۔ آصف نے انکے پاس جاکر پتا نہیں کیا بات کی تو انہوں نے سر ہلایا اور پھر مجھے اشارہ کیا کہ انکے سامنے دوزانو ہوکر بیٹھ جائوں اور اسم ذات اللہ کا بغیر آواز کے ورد کروں ۔ اسکے بعد وہ کچھ پڑہتے جاتے اور میرے بائیں پستان کے زرا نیچے اپنے ہاتھ کی چار انگلیوں سے زور زور سے ضرب لگانے لگے اور توجہ ڈالتے جاتے ۔ انکے ضرب لگانے سے مجھے کافی تکلیف بھی محسوس ہورہی تھی مگر میں برداشت کرتا رہا۔ اسکے بعد پوچھنے لگے انکے ضرب لگانے سے دل میں کوئی تبدیلی محسوس ہوئی تو میں نے نفی میں سر ہلا دیا ۔ انہوں نے دوبارہ یہی عمل دہرایا مگر مجھے کوئی بھی کیفیت اپنے دل میں محسوس نہیں ہوئی ۔
میرے دائیں جانب بیٹھا نائب انکے قریب ہوا اور انکو کسی کے بارے میں اپنی رپورٹ دینے لگا جو اس کے بقول ابھی ابھی اس نے مراقبہ میں نکالی تھی ۔ رپورٹ بہت زیادہ مایوس کن تھی مگر جب بات کرتے ہوئے نائب صاحب نے میری طرف اشارہ کیا تو مجھے پتا لگا کہ یہ رپورٹ تو میری نکال کر پیش کی جارہی ہے ۔ شرمندگی کی وجہ سے میں اس وقت بالکل سن ہوگیا اور ایک شدید مایوسی کی کیفیت مجھ پر طاری ہوگئی ۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اسی وقت یہاں سے اٹھکر بھاگ جائوں ۔ وہ صاحب فرمانے لگے ہمارے ہاں اسی مسجد میں ہر جمعرات نماز عشاء کے بعد ذکر کی محفل ہوتی ہے آپ شرکت فرمائے گا ۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

بینک بیتیاں – باسط صاحب (آخری حصہ)

مجھ سے کہنے لگے اب وہ وائوچر بیگ والٹ کے نچلے پورشن میں نہیں رکھیں گے۔ میرے استفسار پر بولے آپ کسی کو بتائے گا نہیں اسٹیٹ بینک میں ہم قمیض شلوار پہنا کرتے تھے مگر یہاں بینک میں پینٹ شرٹ اور نک ٹائی پہننا لازم ہے ۔ کہنے لگے مجھے پتلون میں بیٹھ کر وائوچر رکھنے میں مشکل ہوتی ہے ۔ کل ہی کی بات ہے بیٹھنے میں مشکل ہورہی تھی تو پتلون کی بیلٹ ڈھیلی کر کے بیٹھ گیا جب واپس کھڑا ہو تو پتلون قدموں میں گری ہوئی تھی۔ کہنے لگے اگر سیمی اس وقت آس پاس ہوتی تو سوچئے کیا ہوتا ؟ میں نے کہا باسط صاحب ایسی بات سوچ کر ہی روح کانپ اٹھتی ہے ۔ برائے مہربانی اب آپ وائوچر بیگ خود کبھی مت رکھئے گا یہ کام میں کرلونگا۔ میری اس آفر سے بڑے خوش ہوگئے چہرے پر بچوں جیسی معصوم مسکراہٹ طاری ہوگئی اور گلے میں ہاتھ ڈال کر بولے باس کو یہ بات مت بتائے گا اور کہے گا کہ آپ یہ کام اپنی مرضی سے خود کرنا چاہتے ہیں ۔

بالغوں والے قصوں کو توبہ توبہ کرکے سنتے جاتے تھے اور کرید کرید کر تفصیل بھی معلوم کرتے جاتے ۔ باتوں باتوں میں ایک فضول سا عبرت آمیز قصہ انکو سنایا جس میں حسرت کا پہلو زیادہ تھا کلائمیکس پر پہنچ کر انکی گول گول آنکھیں ڈیلوں سمیت باہر آچکی تھیں چہرے پر تلذذ کی گہری گھٹائیں چھاگئیں اور انکے منہ سے زور سے سسکاریاں بلند ہونے لگیں ۔ قصہ ختم کرکے میں اپنے کام میں مشغول ہو گیا اور باسط صاحب وقت مقررہ پر بستہ لپیٹ کر چلے گئے۔ دوسرے دن مجھ سے کہنے لگے آئیندہ ایسا قصہ مت سنائے گا میں نے پوچھا ایسا کیوں بول رہے ہیں تو بولے قصے کا ایسا اثر ہوا کہ گھر جاکر بھی وہ قصے کا سوچتے رہے اور پھر مجبوراً اپنی زوجہ سے رجوع کرنا پڑا تب جاکر طبیعت ہلکی ہوئی ۔

انہی دنوں زندگی میں پہلی بار بینک کی کلوزنگ دیکھی سال کا آخری دن جو کہ غیر معمولی طور پر سخت سرد بھی تھا ۔ بینک میں ایسی رونق لگی ہوئی تھی جیسے کوئی تہوار ہو ۔ ہر ڈیپارٹمنٹ اپنی کلوزنگ کررہا تھا بینک کا پرافٹ ہمارا ڈیپارٹمنٹ فائنل کرتا تھا لہذا ریجنل مینیجر صاحب بار بار میرے باس کو فون کرکے مختلف ہدایات دے رہے تھے۔ باقی سب ڈیپارٹمنٹ والے اپنا کام ختم کرکے آٹھ نو بجے تک چلے گئے کیونکہ اکثر کے نیو ائیر سیلیبریشن کے پروگرام بنے ہوئے تھے۔ مگر ہمارے ڈیپارٹمنٹ اور آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ نے فجر سے کچھ دیر پہلے اپنا کام ختم کیا۔ صبح ہوئی تو فراز، نعمان، طارق بھائی، باس اور میں سب ملکر بوٹ بیسن ناشتہ کرنے پہنچے ۔ سال کے پہلے دن کی سرد ترین صبح میں وہ گرما گرم ناشتہ اور نرم گرم دوستوں اور محسنوں کا ساتھ ہمیشہ یاد رہے گا۔

ایک دن دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے مینیجر فاطمی صاحب کسی کام سے ہمارے پاس آئے ہوئے تھے اور باتوں باتوں میں مختلف غذائوں کے فوائد پر گفتگو چل نکلی۔ فاطمی صاحب کہنے لگے ہر غذا کے اپنے فوائد ہیں مگر دودھ سے بڑھ کر کوئی فائیدہ مند چیز نہیں ۔ باسط صاحب جو کافی دیر سے غیر معمولی طور پر انکی گفتگو سن رہے تھے اچانک سے بولے مگر شرط یہ ہے کہ وہ دودھ اشرف المخلوقات کا ہونا چاہئے یہ بات بولتے وقت انکی شکل بالکل دودھ پیتے بچے جیسی لگ رہی تھی۔

باسط صاحب میں ایک فطری سادگی اور معصومیت تھی۔ انہوں نے اپنی پروفیشنل زندگی اسٹیٹ بینک کے جھیل جیسے پرسکون ماحول میں گزاری تھی اور اب وہ ہمارے بینک کے تیز و تند دریا جیسے ماحول میں تیرنے کی کوشش کررہے تھے جو کہ ایک لاحاصل کوشش تھی۔

چھے مہینے کی ٹریننگ کے بعد میرا ٹرانفسر دوسری برانچ میں ہوگیا اور اسکے کچھ دن بعد باسط صاحب کا کانٹریکٹ ختم ہوگیا اس دفعہ اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے بھی انکی سفارش نہیں کی اور باسط صاحب خاموشی سے بینک چھوڑ گئے ۔

کچھ عرصے کے بعد میں کسی کام سے کہیں گیا تو ایسا لگا کوئی میرا نام لیکر پکار رہا ہے پلٹ کر دیکھا تو باسط صاحب کو سامنے پایا بڑی گرم جوشی سے ملے اور کہنے لگے سامنے والے بینک میں کیشیئر کی نوکری مل گئی ہے ابھی کچھ دن ہوئے جوائننگ دی ہے ۔ باسط صاحب اور کیشیئر کی جاب میں نے دل ہی دل کہا اللہ خیر کرے کس ظالم نے انکو اس جاب میں پھنسا دیا ہے۔ کیشیئر کا کام باسط صاحب کے بس کا نہیں اس بات کا مجھے بخوبی اندازہ ہوگیا تھا۔ کچھ دن بعد کسی کام سے دوبارہ اسطرف جانا ہوا اور باسط صاحب کا پوچھا تو معلوم ہوا اب وہ یہاں کام نہیں کرتے مزید پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔

کسی جاننے والے سے معلوم ہوا کہ باسط صاحب گھر بیٹھے ہیں طبیعت ناساز رہتی ہے بس گھر سے مسجد ہی جاتے ہیں۔ انکی طبیعت کا سنکر دل سے انکے لئے ڈھیروں دعائیں نکلیں۔ باسط صاحب سے عمر کے بہت زیادہ فرق کے باوجود دوستی ہوگئی تھی اور وہ ہمیشہ مجھ سے بہت محبت سے پیش آتے اور آپ جناب سے بات کرتے تھے۔ آج جب پلٹ کر گزری باتیں یاد آتی ہیں تو باسط صاحب کی پر بہار شخصیت کی یاد چہرے پر ایک اداسی بھری مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے۔

بینک بیتیاں – کوچئہ سود کی یادیں


ابتدائیہ : بینک کے کوچئہ سود میں دل کو یہ تسلی دیکر قدم رکھا تھا کہ ہمارے سود کے گناہ کی پوچھ بینک کے مفتیان سے ہوگی اور گھر والوں کو بھی یہی اطمینان دلایا تھا۔ اسکے علاوہ کوئی اور قدر مشترک نا سہی مشتاق احمد یوسفی بھی تو اسہی پیشے سے وابستہ تھے ۔ جب یوسفی صاحب کی کتاب ذرگزشت پہلی بار پڑہی تھی تو عقل حیران ہوتی تھی کہ ایک ہی بینک کی چھت کے نیچے کیسے کیسے کردار چلتے پھرتے تھے اور ہر ایک کے پیچھے ایک نئی کہانی اور ایک نیا زندگی کا زاویہ۔ اگرچہ بینکنگ کو خیرباد کہے ہوئے برسوں بیت گئے ہیں مگر ان گذرے ہوئے دنوں کی یاد، ناکامیاں، لڑائیاں، دوستیاں ان سب سے پیچھا چھڑانا ناممکن ہے ۔ بینک بیتیاں انہی دنوں کی یادش بخیر ہے ۔ 


باسط صاحب – پہلا حصہ 

 میرا ان دنوں بینک میں جونئیر آفیسر کی حیثیت سے اپوائنٹمنٹ ہوا تھا اور کام سیکھنے کی غرض سے مجھے ریجنل آفس میں جوائن کرایا گیا تھا جس کے بعد دوسری برانچ میں ٹرانسفر ہونی تھی ۔ بینک کا ریجنل آفس کئی منزلہ عمارت میں قائم تھا اور ریجنل آفس کا ماحول کام سیکھنے کے لحاظ سے ایک بہترین تربیت گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔

 جس ڈیپارٹمنٹ میں میری پوسٹنگ تھی وہیں پہلے ہی دن میرا پہلا تعارف باسط صاحب سے ہوا بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ باسط صاحب نے اپنا تعارف بغیر پوچھے ہی کرادیا جو وہ ہر نئے آنے والے ملاقاتی سے روز کراتے رہتے تھے ۔  موصوف بھاری بھرکم جثے کے تھے اگر انکو  گول مٹول کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ سر اور ریش کے بال بالکل سفید تھے اور سر پر ٹوپی ضرور پہنتے تھے۔ اسٹیٹ بینک سے گولڈن ہینڈ شیک ریٹائرمنٹ کے بعد اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی سفارش پر ہمارے بینک میں کانٹریکٹ پر کام رہے تھے بلکہ اکثر کام خراب ہی کرتے پائے جاتے تھے۔ ہمارے باس اکثر یہ کہتے پائے جاتے تھے کہ ذہنی انہماک والا کام صرف باسط صاحب کی چھٹی کے بعد ہی ہوسکتا ہے ۔

 اسٹیٹ بینک نے انکو اس سانچے میں ڈھال دیا تھا کہ آفس ٹائم سے آئیں یا نا آئیں باقی سارے کام ٹائم سے انجام فرماتے تھے جس میں آفس آنے کے بعد پورے اخبار کا مطالعہ اور اس پر سیر حاصل تبصرے، دن کی دو ٹائم کی چائے ، دوپہر کا لنچ اور وقت کی پابندی سے پانچ بجے آفس سے چھٹی۔ درج بالا کسی امور میں دیر یا ناغہ برداشت نہیں کرے تھے ۔ آفس بوائے اگر چائے کسی اور کو پہلے پیش کردیتا تو بہت برا مناتے اور کئی دن تک آفس بوائے کی خامیاں گن گن کر بتاتے اور اپنی ہاں میں ہاں ملواتے تھے ۔ باسط صاحب جب لنچ کرنے لنچ روم میں جاتے تو آفس والے سب ادھر ادھر ہوجاتے تھے ۔ میں نے شروع شروع میں آفس بوائے سے کہا کہ باسط صاحب اصرار کررہے ہیں کے میں آج لنچ انکے ساتھ کروں تو میرا لنچ ساتھ ہی لگا دینا ۔ آفس بوائے کہنے لگا بینک کا کوئی بندہ بھی باسط صاحب کے ساتھ لنچ نہیں کرسکتا آپ بھی ایسی کوشش نا کرو ۔ میں ان سے آپ کیلئے بہانا کردونگا کہ آپ مصروف ہیں ۔ میری بات تو سمجھ نہیں آئی مگر اسکی بات مان لی اور آفس بوائے نے باسط صاحب کو مطمئن کردیا کہ عاطف صاحب بہت مصرف ہیں لہذا آپ کھانا اکیلے ہی کھا لیں اور چونکہ انکو مقررہ وقت پر لنچ کرنے کی عادت تھی تو وہ بھی مان گئے۔ ایک دن سوئے اتفاق سے پورے ریجنل آفس کا لنچ ساتھ ہوا تو جو ان آنکھوں میں دیکھا وہ دید کے قابل تو نا تھا ۔ باسط صاحب کھانے پر چنگیزی فوج کی طرح حملہ آور ہوتے تھے ایک ہی جھٹکے میں مرغی کی ران سے گوشت ایسے اتارتے تھے جیسے تاتاری تلواروں سے گردنیں اڑاتے ہونگے۔ نوالہ منہ میں ڈالتے وقت انکی آدھی انگلیاں منہ میں چلی جاتی تھیں اور پھر انگلیوں میں لگا سالن چثاخ چٹاخ چاٹنے کے بعد سالن میں اپنے لعاب دہن سے لیس کا اضافہ کرتے جاتے تھے ۔ آفس بوائے میرے پاس آیا اور کہنے لگا دیکھا سر اگر آپ اس دن باسط صاحب کے ساتھ کھانا کھاتے تو انکے پہلے نوالے کے بعد آپ پلیٹ سے ایک نوالہ بھی نہیں لے سکتے تھے۔

 جہاں باسط صاحب بیٹھا کرتے تھے اس سے کچھ ہی فاصلے پر ایک لڑکی سیمی کی ٹیبل تھی ۔ سیمی کمپلائنس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی تھی اس نے ایم بی اے کرکے بینک جوائن کیا تھا ۔ باسط صاحب کام کرتے کرتے جو کہ وہ کم ہی کرتے تھے یا اخبار پڑھتے پڑھتے کن اکھیوں سے سیمی کی طرف نظریں کرکے ایک ٹھنڈی آہ بھرا کرتے تھے ۔ اکثر مجھے بتاتے تھے کے سیمی انکی بہت عزت کرتی ہے اور انکی شخصیت سے بڑی متاثر ہے ۔ اسکا باس خود کوئی کام نہیں کرتا اور سارا کام سیمی سے کراتا ہے ۔ میرا دل چاہتا ہے اسٹیٹ بینک میں ڈپٹی ڈائریکٹر صاحب کو بول کر سیمی کے باس کی کلاس کرادوں مگر اس ڈر سے شکایت نہیں کرتا کہ کہیں سیمی پر بات نا آجائیے۔ سیمی کی میرے کولیگ فراز سے اچھی دوستی تھی اور میں بینک میں آنے سے پہلے ایک دو دفع فراز سے مل چکا تھا اسلئے میری بھی فراز سے بہت اچھی دوستی ہوگئی تھی اور واپسی میں فراز مجھے جوہر تک اپنی بائیک پر ڈراپ بھی دیتا تھا جسکے بعد ہم لوگ کوئٹہ ہوٹل پر بیٹھ جاتے اور چائے پراٹھا کھاتے تھے ۔ فراز ہی کی وجہ سے میری آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے نعمان اور دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے ساتھیوں سے بہت اچھی دوستی ہوگئی تھی اور اب مجھے بینک میں کام کرنے میں مزا آنا شروع ہوگیا تھا ۔ اکثر میں رات ساڑھے دس بجے تک اکیلا کام کرتا رہتا تھا اور سب سے آخر میں بینک سے نکلتا تھا۔ رات والے گارڈز بھی مجھے پہچاننا شروع ہوگئے تھے ۔

 فراز کی باسط صاحب سے بالکل بھی نہیں بنتی تھی۔ چونکہ فراز منہ پھٹ تھا اور وہ باسط صاحب کی عمر کا لحاظ نہیں کرتا تھا جسکا باسط صاحب برا مناتے اور فراز کے پیجھے مجھ سے اسکی برائیاں کرتے اور ساتھ ساتھ منع بھی کرتے کے یہ سب باتیں میں فراز کو نا بتائوں۔

 چونکہ میں باسط صاحب کی تمام باتیں غور سے سن لیتا تھا لہزا وہ مجھ پر بھروسہ بھی کرنے لگ گئے تھے۔ ایک دن کہنے لگے کہ سیمی کل بہت اچھی ڈریسنگ کرکے آئی تھی تو میں نے اس سے کہا آج آپ بہت فریش لگ رہی ہیں تو اس نے کہا شکریہ باسط صاحب آپ تو روز ہی فریش لگتے ہیں ۔ باسط صاحب بولے میرے دل میں آیا بولوں جان اسہی بات پر میرے گلے لگ جائو ۔ یہ بات تو طے ہے کہ مرد ذات کا بھروسہ نہیں مگر باسط صاحب کے منہ سے یہ الفاظ سنکر مجھے جھٹکا تو لگا مگر میں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا اور اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ ایک دن باتوں باتوں مے میں نے نعمان سے کہا کہ باسط صاحب بھی سیمی پر لٹو ہیں تو وہ ہنسنے لگا اور بولا اچھا میں آج ہی سیمی کو یہ بات بتاتا ہوں ۔ میں ڈر گیا کہ بھائی کیوں ایسا کرتے ہو باسط صاحب تو بدنام ہونگے ہی سیمی کے سامنے میری بھی کوئی عزت نہیں رہے گی ۔ میں نے یہ بات تمہی اس لئے بتائی ہے کہ تم سیمی کو سمجھائو کہ باسط صاحب سے تھوڑا فاصلہ رکھے وہ سیمی کے ہنسی مزاق کرنے کو غلط سمجھ رہے ہیں ۔ نعمان بولا تم فکر نہیں کرو سیمی بہت کھلے دماغ کی ذہین لڑکی ہے وہ سب سمجھتی ہے ۔ بعد میں مجھے پتا چلا سیمی، فراز اور نعمان کے ساتھ پیزا کھانے گئی تھی ان دونوں نے اسکو اسکے گھر سی پک کیا تھا اور پھر تینوں پیزا کھانے گئے تھے ۔

 سیمی سے میری صرف سلام دعا کی حد تک بات چیت تھی ۔ نعمان اپنی دوستوں کے ساتھ پکنک کی البم آفس لیکر آیا تو سیمی نے اسکے ہاتھ سے البم لے لی اور تصویرں دیکھنے لگی تو نعمان نے کہا تم البم دیکھ کر عاطف کو دیدینا ۔  میں اپنی ٹیبل پر بیٹھا کام میں مصروف تھا اور فراز کہیں گیا ہوا تھا سیمی اپنی مخصوص چال سے چلتی ہوئی آئی اسکا ایک خاص انداز تھا چلنے کا وہ بہت سنبھل مگر تھوڑا لہراکر چلتی تھی ۔ سیمی کچھ کہے بغیر میرے سامنے البم رکھکر چلی گئی ۔ باسط صاحب اپنی ٹیبل کے سامنے بیٹھے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ میں نے البم کھولی تو اسمیں نعمان کی سمندر کے کنارے نہاتے ہوئے مختلف پوز میں تصویریں تھیں ۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور میں نے البم بند کرکے دراز میں رکھدی۔

 اب باسط صاحب کو بے چینی شروع ہوگئی کبھی وہ اپنی ٹوپی سر سے اتار کر سیدھی کرتے کبھی سیٹ سے کھڑے ہوکے اپنی نیچے گرتی ہوئی پتلون کو اوپر کھینچتے ۔ کبھی رومال سے اپنا منہ صاف کرتے ۔ جب بہت دیر ہوگئی اور انکی برداشت کی حد گزر گئی تو وہ اٹھکر میری ٹیبل پر آگئے اور بولے آپ تو ہمارے دوست ہیں کیا آپ نہیں بتائیں گے کے سیمی ابھی آپ کو کیا دیکر گئی ہے ۔

 اسہی وقت اچانک میرے دماغ میں ایک شیطانی آئیڈیا آیا اور میں بہت سنجیدہ شکل بناکر بولا باسط صاحب ایک غیر شادی شدہ کنواری لڑکی کی سمندر پر نہاتے ہوئے تصویریں ہیں اور وہ میں آپ کو نہیں دکھا سکتا ۔ اب تو باسط صاحب کے بانچھیں کھل گئیں اور انکے منہ سے بس رال ٹپکنے کی کسر رہ گئی تھی ۔ وہ خوشامدی لہجے میں بولے میں نے آپ کو دوست سمجھا اور آپ مجھ پر بھروسہ نہیں کر رہے ہیں ۔ آپ بتائیں تو کسکی تصویریں ہیں ، کیا سیمی کی ہیں ؟ ایسا بولتے ہوئے انکے دماغ کے پردے پر چلتی ہوئی برہنہ تصاویر انکی آنکھوں میں صاف دکھ رہی تھیں ۔میں انتہائی سنجیدہ شکل بناکر رازدارانہ لہجے میں بولا باسط صاحب سیمی اپنی دوستوں کے ساتھ سمندر پر پکنک منانے گئی تھی اسنے نعمان سے اسکا کیمرہ لیا تھا جس میں آدھی تصویریں کھینچنا باقی تھیں جو سیمی نے اپنی پکنک پر کھنچی ہیں یہ بات مجھے نعمان نے بتائی ہے ۔ آج نعمان وہ البم ڈیویلپ کرواکر لایا ہے۔ وہ بتا رہا تھا کہ سیمی کی انتہائی باریک اور گیلے کپڑوں میں تصویریں ہیں ۔

 اب تو باسط صاحب کسی بچے کی طرح ضد کرنے لگے جسے ہر قیمت پر اپنا من پسند کھلونا چاہئے ہوتا ہے ۔ میں نے کہا باسط صاحب کسی لڑکی کی عزت کا معاملہ ہے آپ پلیز یہ البم یہاں نا دیکھیں ۔ انہوں نے جھٹ سے میرے ہاتھ سے البم لی اور واش روم کی طرف بھاگے۔ میں نے فوراً نعمان کا ایکسٹینشن ملایا اور ساری کہانی سنائی فراز بھی نعمان کے پاس بیٹھا تھا دونوں پیٹ پکڑ کر ہنسنا شروع ہوگئے ۔ اب مجھے باسط صاحب کا انتظار تھا کہ وہ واپس آکر کیا بولتے ہیں کیونکہ البم میں تو صرف نعمان کی تصویریں تھیں۔ کچھ دیر کے بعد باسط صاحب ستے ہوئے چہرے کے ساتھ آئے اور البم مجھے واپس کرتے ہوئے بولے آپ کو مجھ سے ایسا مذاق نہیں کرنا چاہئے تھا۔ کیسا مذاق ؟ میں بولا۔ اس البم میں صرف نعمان کی تصویریں ہیں اور سیمی کی ایک بھی تصویر نہیں ہے ۔ باسط صاحب مجھے گھورتے ہوئے بولے۔ میں نے فوراً انکے ہاتھ سے البم لیا اور الٹ پلٹ تصویریں دیکھیں پھر سنجیدہ شکل بناکر بولا باسط صاحب میرا خیال ہے سیمی نے اپنی پکنک کی تصویریں پہلے ہی نکال لی ہیں ۔ میں نے بھی آپکے سامنے البم کا پہلا پیج ہی دیکھا تھا ۔ مگر نعمان نے ساری تصویریں دیکھی ہیں۔ باسط صاحب اسکے بعد کافی دیر مایوسی سے بیٹھے ٹھنڈی آہیں بھرتے رہے اور سیمی کی ٹیبل کو دیکھتے رہے جو دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں کمپلائنس کے لئے گئی ہوئی تھی ۔ 


 جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

املتاس کا ایک زرد پُھول بانو قدسیہ کے سفید بالوں پر – مستنصر حسین تارڑ

املتاس کا ایک زرد پُھول بانو قدسیہ کے سفید بالوں پر
مستنصر حسین تارڑ
15-02-2017
اشفاق صاحب کی وفات کے بعد بانو آپا حقیقتاً بھری دنیا میں اکیلی رہ گئیں۔۔۔جس دیوتا کے چرنوں میں وہ ہمہ وقت عقیدت اور اطاعت گزاری کے پھُول چڑھاتی تھیں، وہ اپنا سنگھان چھوڑ کر چلا گیا تھا۔۔۔صرف اُن کے بیٹے اسیر نے اُن کا ساتھ نہ چھوڑا، بقیہ دو بیٹے بھی اپنی ماں کے وجود سے بے خبر اپنی اپنی حیات کے بکھیڑوں میں اُلجھے رہے، منظور جھلّے نے کہا تھا کہ :
واجاں ماریاں کئی وار وے۔۔۔ کسے نے میری گَل نہ سُنی
اُنہوں نے بھی آوازیں بہت دیں پر کسی نے اُن کی بات نہ سُنی۔۔۔ نہ اشفاق صاحب کے رشتے داروں نے اور نہ ہی اُن کی کسی بہو نے۔۔۔بلکہ اُن پر اپنے دروازے بند کرلئے۔۔۔بانو کی زندگی یونانی المیہ ڈراموں سے بھی کہیں بڑھ کر الم ناک اور دُکھ بھری تھی۔ اشفاق صاحب کے رخصت ہونے پر وہ کبھی کبھار صبح سویرے ماڈل ٹاؤن پارک میں چلی آتیں، اپنا دوپٹہ بار بار سفید بالوں پر درست کرتیں، اپنے دھیان میں مگن چلی جاتیں۔۔۔وہ جون جولائی کے قہر آلود گرم موسم تھے اور پارک میں املتاس کے جتنے بھی شجر تھے اُن پر زرد چینی لالٹینیں روشن ہو گئی تھیں۔ ہوا کا ایک جھونکا سرسراتا آیا، املتاس کے پھولوں کے انبار میں ارتعاش پیدا ہوا اور وہ پھول درختوں سے جدا ہو کر ایک زرد بارش کی صورت دھیرے دھیرے گرنے لگے۔ ان میں سے ایک پھول، ایک زرد تتلی کی مانند ایک بھنورے کی مانند گھومتا اترا اور بانو آپا کے سفید بالوں میں اٹک گیا۔ وہ اُس کی موجودگی سے بے خبر تھیں اور یہ منظر میرے ذہن کے کینوس پر ہمیشہ کے لئے نقش ہوگیا۔۔۔ایک بوڑھی ہیر جس کا رانجھا اُس سے بچھڑ گیا تھا اُس کی اداسی میں گُم اور اُس کے سفید بالوں میں املتاس کا ایک زرد پھول یُوں اٹکا ہوا ہے جیسے وہ اُس کے محبوب کے ہاتھوں کا لکھا ہوا ایک خط ہو اور وہ بے خبر ہے کہ شاید اُس کے رانجھے نے اُسے یہ زرد پریم پتر بھیجا ہے اور تب مجھے محسوس ہوا جیسے اُس املتاس کے زرد پُھول کا رنگ اُن کے بالو میں سرایت کرتا اُنہیں زرد کرتا ہے، اُن کے چہرے پر پھیلتا اُسے سرسوں کا ایک کھیت کرتا ہے اور بانو قدسیہ اُس لمحے ملک چین کی کوئی زرد شہزادی لگ رہی تھی۔۔۔میں نے اس بے مثال زرد تصویر کو اپنے ایک کالم میں نقش کیا۔۔۔چونکہ میں نہ کبھی کسی کو اطلاع کرتا ہوں اور نہ ہی اپنے کالم کی کاپی روانہ کرتا ہوں کہ دیکھئے یہ میں نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ میں کسی کے لئے نہیں صرف اپنے لئے لکھتا
ہوں۔۔۔تقریباً ایک ماہ کے بعد بانو آپا کا ایک خط آیا، اُن کے کسی چاہنے والے نے اُنہیں اس کالم کی فوٹوسٹیٹ روانہ کی تھی، بانو آپا نے جس طور اُس تحریر کو سراہا اُسے میں یہاں نقل کرنے سے گریز کرتا ہوں۔
وہ میرے تینوں بچوں کی شادیوں میں شریک ہوئیں، ہر ایک کی ہتھیلی پر کچھ رقم رکھی۔۔۔اُن کے لئے دعا کی، اُنہیں پیار کیا۔۔۔ اُن کی موت کی خبر اُن تینوں تک نیویارک، فلوریڈا اور ہنوئی میں پہنچی تو وہ کتنے دُکھی ہوئے یہ میں بیان نہیں کرسکتا۔۔۔سُمیر نے کہا، ابّو میں نے ابھی تک وہ نوٹ سنبھال رکھا ہے جو بانو آپا نے مجھے پچھلی عید پر عیدی کے طور پر دیا تھا۔ وہ ہمیشہ میری خوشیوں میں شریک رہیں۔۔۔میری پچھترویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لئے وہ اپنی نرس اور زبیر اکرم کے سہارے چلی آئیں۔ وہ اور عبداللہ حسین صدارت کے لئے میری پسند تھے کہ وہی میرے نزدیک اردو ادب کے سب سے بڑے نثرنگار تھے۔۔۔ جب ابرارالحق اور فریحہ پرویز میری سالگرہ کے گیت گانے کے لئے سٹیج پر آئے تو وہ مسکرانے لگیں، کبھی کبھی سر ہلا کر اُنہیں داد دیتیں۔۔۔جب گلزار صاحب کی آواز سپیکر پر گونجی اُنہوں نے سالگرہ کے حوالے سے کچھ توصیفی کلمات کہے تو پُوچھنے لگیں۔۔۔ یہ کون صاحب ہیں۔۔۔میں نے کہا بانو آپا یہ میرے دوست ہیں۔ یہ کہاں ہوتے ہیں۔۔۔ بعدازاں اُنہوں نے میرے بارے میں کچھ گفتگو کی اور میں جان گیا کہ بانو آپا اب بہکتی جا رہی ہیں، یادداشت اُن کا ساتھ چھوڑ رہی ہے، اُن کی آپ بیتی ’’راہ رواں‘‘ میں قدم قدم پر اُن کے بھٹک جانے کے آثار ہیں۔۔۔ وہ بُھلکڑ ہو گئی تھیں۔۔۔جِی چاہنے کے باوجود میں ’’داستان سرائے‘‘ جانے سے گریز کرتا کہ وہ نہ صرف خود ایک بھولی ہوئی داستان ہیں بلکہ وہ تو اپنی داستان بھی بھول چکی ہیں۔ ایک بار اُن کے ہاں گیا تو بہت دیر کے بعد کہنے لگیں ’’مستنصر تم ہو۔۔۔ تم تو اشفاق صاحب کے ڈراموں کے ہیرو ہوا کرتے تھے۔۔۔بُوڑھے کیوں ہو گئے ہو؟‘‘
’’داستان سرائے‘‘کے آس پاس سب گلی کُوچے خلق خدا سے بھرے پڑے تھے، میمونہ کا کہنا تھا کہ بانو آپا کا جنازہ اس لئے اتنا بڑا تھا کہ لوگوں نے اُنہیں ہمدردی کا ووٹ ڈالا تھا۔۔۔جو کچھ اُن پر گزری اور اُنہوں نے اُف تک نہ کی، برداشت کیا تو لوگ اُن کے صبر کو سلام کرنے آئے تھے۔ وہ اشفاق احمد کی بیوی کے جنازے پر نہیں۔۔۔بانو قدسیہ کے جنازے پر آئے تھے۔۔۔اگر اُنہیں اس ہجوم کا کچھ اندازہ ہوتا تو وہ وصیت کر جاتیں کہ لوگو مت آنا۔۔۔ میرے جنازے پر کم آنا۔۔۔میرے محبوب کی نسبت میرے جنازے پر کم آنا۔۔۔ پر لوگ کہاں سنتے ہیں، وہ آئے اور بے حساب آئے۔ اور اس کے باوجود بانو آپا نے تُرپ کا آخری پتّا اپنی موت کے بعد یُوں پھینکا۔۔۔ کہ اشفاق صاحب کے قدموں میں دفن ہو گئیں۔ میں نے آگے بڑھ کر جھانکا تو اُن کی قبر بہت گہری تھی، لحد میں وہ اپنے سفید کفن میں روپوش سمٹی سی، سجائی ہوئی، شرمائی ہو ئی پڑی تھیں کہ اُن کے سرہانے اُن کا محبوب سویا ہوا تھا۔۔۔ اور بالآخر اُن کو وصل نصیب ہو گیا تھا۔ اور جب گورکنوں نے کُدالوں سے اُن کی قبر کو مٹی سے بھر دیا اور اُس پر پھول چڑھائے گئے تو مجھے ایک مرتبہ پھر عذرا پاؤنڈ کا وہ نوحہ یاد آگیا جو اختر حسین جعفری نے لکھا تھا۔۔۔
تجھے ہم کس پُھول کا کفن دیں
تو جُدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے
املتاس کا ایک زرد بھنورا پُھول بھی نہ تھا۔۔۔

مستنسر حسین تارڑ

 

اچھا لطیفہ اچھے شعر سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے – ڈاکٹر یونس بٹ

انٹرویو – حسان خالد

 

 

ایم بی بی ایس مزاح نگار

یہ 90 کی دہائی کے آغاز کی بات ہے، ڈاکٹر محمدیونس بٹ مزاح نگاری میں اپنی پہچان بنا چکے تھے اور بیسٹ سیلرز مصنفین میں شمار ہوتے تھے۔ پی ٹی وی کے لیے لکھے گئے ان کے ابتدائی ڈراموں کو بھی پذیرائی مل چکی تھی۔ اس کے ساتھ ان کی ڈاکٹری بھی چل رہی تھی اور ان دنوں ایک میڈیکل کورس کے لیے انہیں لندن جانا تھا۔ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ مستقل طور پر دونوں شعبوں میں سے کس کا انتخاب کریں، لیکن پھر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان کی مشکل آسان کر دی۔ انہیں ناک، گلے کی کوئی تکلیف ہوئی، جس کا معائنہ کرانے کے لیے وہ اپنے ایک پروفیسر کے پاس گئے جو اس شعبے کے ماہر تھے۔

پروفیسر صاحب نے ان کا معائنہ کرنے کے بعد انہیں اپنی غزلیں سنانا شروع کر دیں اور باہر کہلا بھیجا کہ اندر کوئی اور مریض نہ بھیجا جائے۔ ان کو پروفیسر صاحب پر بڑا ترس آیا کہ اتنے بڑے ڈاکٹر ہونے کے باوجود وہ اپنے کام سے خوش نہیں ہیں، کیوں کہ وہ شاعر بننا چاہتے تھے، لیکن آج انہیں کوئی ایسا شخص نہیں ملتا جسے وہ اپنی شاعری سنا سکیں۔ ڈاکٹر یونس بٹ نے تصور کیا کہ وہ بھی کئی برس بعد سینئر ڈاکٹر بن جائیں گے، لیکن پھر اپنی مزاحیہ تخلیقات سنانے کے لیے لوگ ڈھونڈتے پھریں گے۔ انہوں نے سوچا کامیابی یہی ہے کہ بندہ وہ کام کرے جو اسے پسند ہو، چناں چہ انہوں نے ڈاکٹری کو اس وقت خیرباد کہا اور اپنی تمام توجہ طنز و مزاح کی تخلیق پر مرکوز کر لی۔

’بچپن میں ایک بچہ تھا‘

محمد یونس بٹ نے گوجرانوالہ کے ایک متوسط کاشتکار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس وقت تاریخ پیدائش کو اس طرح یاد رکھا جاتا تھا کہ فلاں جنگ سے اتنے دن پہلے یا فلاں واقعے کے اتنا عرصہ بعد پیدا ہوا۔ جب بچے کو سکول داخل کرایا جاتا تب کوئی بھی تاریخ لکھوا دی جاتی، جو ان کی جنوری 1962ء لکھوائی گئی۔ کہتے ہیں، ’’بچپن میں میں ایک بچہ تھا اور الف بے سے ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔‘‘ گوجرانوالہ کے پہلوان مشہور ہیں، ان کو بھی بچپن میں پہلوانی کا بہت شوق تھا۔ اس کے متعلق بتاتے ہیں، ’’میں کشتی دیکھنے اکھاڑے میں جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ پہلوان سے کشتی سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو اس نے مجھے دیکھ کر کہا، تم بس روزانہ دو کشتیاں دیکھ لیا کرو، تمھاری صحت کے لیے اتنا کافی ہے۔‘‘

دیسی کشتی میں زورآزمائی کے دوران پہلوانوں کے کانوں کا سلامت رہنا ممکن نہیں ہوتا، انہیں بھی پہلوانوں کی طرح کان تڑوانے کا شوق تھا۔ کہتے ہیں، ’’والدہ کو میرے اس شوق کا علم ہوا تو انہوں نے سختی سے روک دیا اور اکھاڑے میں جانے سے بھی منع کر دیا۔ اب سوچتا ہوں کہ اگر وہ مجھے نہ روکتیں تو میں آج کن ٹٹا رائٹر ہوتا۔‘‘ انہوں نے گورنمنٹ جامعہ ہائی سکول سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے ایف ایس کی اور اپنے شہر میں ٹاپ کیا۔

لاہور میں پیدل نوجوان

ایف ایس سی کے بعد میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے وہ لاہور پہنچ گئے جہاں ان کی کوئی جان پہچان نہیں تھی۔ عبدالغنی فاروق گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں اردو کے استاد تھے، جو بعد میں دیال سنگھ کالج لاہور چلے گئے۔ انہوں نے کہا تھا کہ لاہور میں دیال سنگھ کالج آ جانا۔ وہ دیال سنگھ کالج پہنچ کر اپنے استاد سے ملے، جنہوں نے داخلہ فارم جمع کرانے کے لیے اپنے کچھ طالب علموں کو ان کے ہمراہ بھیج دیا۔ یوں ان کا کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ ہو گیا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اس وقت مجھے پتا نہیں تھا کہ یہ کوئی بہت بڑا ادارہ ہے، یہ تو بعد میں جا کر معلوم ہوا کہ میں ایشیا کے عظیم ترین ادارے میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔‘‘

لکھنے کا آغاز بھی اس دور میں ہوا۔ انہیں پیدل چلنے کی بہت عادت تھی، پیدل چلنے کے دوران یہ جملے سوچتے اور پھر ہوسٹل جا کر لکھ لیا کرتے۔ عبدالغنی فاروق نے انہیں مجیب الرحمن شامی کے پاس بھیجا، جن سے ان کا ایسا تعلق استوار ہوا جو آج تک قائم ہے۔ ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں، ’’مجیب الرحمٰن شامی صاحب نے اپنے بچوں کی طرح میرا دھیان رکھا، ان کی موجودگی سے تحفظ کا احساس ہوتا تھا کہ اس بڑے شہر میں کوئی اپنا بھی ہے۔‘‘

ادبی سفر کا آغاز

چائینیز ریسٹورنٹ میں ’حلقہ ادب‘ کا اجلاس ہوا کرتا تھا، انہوں نے بھی وہاں جانا شروع کر دیا۔ وہاں تحسین فراقی، عبدالحفیظ احسن، انجم رومانی اور ڈاکٹر وحید عشرت جیسی علمی و ادبی شخصیات آتی تھیں۔ یہ خاموش بیٹھ کر دوسرے ادیبوں کی تخلیقات سنتے رہتے، پھر ایک دن ان سے کہا گیا کہ اگلی دفعہ آپ بھی اپنی کوئی چیز پیش کریں۔

اگلے اجلاس میں انہوں نے ’’درد‘‘ کے عنوان سے انشائیہ سنایا، جسے بہت داد ملی۔ کہتے ہیں، ’’جب میں انشائیہ پڑھ رہا تھا، وہاں بیٹھے ہوئے لوگ ہنس رہے تھے، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ مجھ سے اچھا نہیں لکھا گیا، جس کی وجہ سے یہ لوگ میری تحریر پر ہنس رہے ہیں۔ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ میں نے کوئی بہت مزاحیہ چیز لکھی تھی، اپنی طرف سے تو میں ایک سنجیدہ تحریر لکھ کر لایا تھا، لیکن چوں کہ طنز و مزاح میرے اندر تھا، اس لیے یہ چیز میری تحریر میں بھی آ گئی۔‘‘ اجلاس میں موجود وحید عشرت نے ڈاکٹر یونس بٹ سے وہ تحریر لے کر مظفر علی سید کو بھجوا دی، جو نوائے وقت ادبی ایڈیشن کے انچارج تھے۔ انہوں نے ادبی ایڈیشن میں یہ تحریر اس نوٹ کے ساتھ چھاپی: ’’اگر کسی کو جاننا ہو کہ انشائیہ کیا ہوتا ہے وہ اس تحریر کو پڑھ لے۔‘‘

ہاسٹل، ایک جنت

ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں، ’’میری زندگی کا اہم حصہ ہاسٹل میں گزرا۔ میری ابتدائی کتابیں اس دور میں آئیں، ڈرامہ نگاری اورکالم نگاری کا آغاز بھی وہاں سے ہوا۔ بنیادی طور پر ہاسٹل کی زندگی مجھے پسند ہے، جہاں آپ سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا اور آپ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ مجھے تو ہاسٹل اور جنت کا منظر ایک جیسا لگتا ہے مثلاً جنت کے بارے میں یہ ہے کہ وہاں کوئی بوڑھا نہیں ہوگا، اس طرح ہاسٹل میں بھی سب نوجوان ہوتے ہیں۔

جنت میں پریشانی تب آئی تھی جب حضرت حوا آئی تھیں، بوائز ہاسٹل میں بھی چوں کہ حوا کی بیٹی نہیں ہوتی اس لیے پریشانی ہاسٹل کے دروازے کے باہر کھڑی رہتی ہے، اندر نہیں آتی۔ میں کہا کرتا ہوں، جو ہاسٹل میں نہیں رہا اس نے اپنی آدھی زندگی ضائع کر دی اور جو ہاسٹل میں رہا اس نے اپنی پوری زندگی ضائع کر دی۔‘‘

دنگل، پہلا ڈرامہ

ہاسٹل کے دنوں میں ہی انہیں ٹی وی کے لیے ڈرامہ لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ انہوں نے ’’دنگل‘‘ کے نام سے پہلا ڈرامہ لکھا اور اسے لے کر مظفر علی سید کے پاس چلے گئے۔ مظفر علی سید نے انہیں آگے اشفاق احمد کے پاس بھیج دیا، جو اس وقت اردو سائنس بورڈ میں ہوتے تھے۔ یہ پیدل چلتے ہوئے وہاں بھی پہنچ گئے اور اتفاق سے اشفاق صاحب نے اسی وقت انہیں اندر بلا لیا۔ اشفاق احمد نے انہیں کہا کہ آپ اسکرپٹ دے دیں، میں دو تین دن میں اس کو دیکھ لوں گا۔ یہ دو دن بعد گئے تو ابھی تک انہوں نے سکرپٹ نہیں دیکھا تھا۔ اشفاق احمد نے ان کی موجودگی میں سکرپٹ پڑھنے کے بعد اسے پی ٹی وی لے جانے کا کہا۔ انہوں نے اپنے کارڈ کے پیچھے یہ الفاظ لکھ کر دیئے: ’’میں نے کسی کو اپنا پہلا ڈرامہ اتنا اچھا لکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘

ڈاکٹر یونس بٹ اشفاق احمد کا یہ کارڈ اور ڈرامے کا سکرپٹ لے کر پی ٹی وی کے دفتر چلے گئے اور وہاں استقبالیہ میں یہ دونوں چیزیں دے دیں۔ انہیں کہا گیا کہ آپ کو بعد میں بتایا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ایک دن ہاسٹل اپنے کمرے میں بیٹھا تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ پی ٹی وی کے کوارڈینیٹر ہیں اور یہ بتانے آئے تھے کہ میرا ڈرامہ منظور ہو گیا ہے۔ وہ مجھے ساتھ لے کر پی ٹی وی آئے جہاں میں نے دیکھا ڈرامے کی ریہرسل ہو رہی تھی۔ عبدالعزیزنے اس کو ڈائریکٹ کیا تھا۔ اس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ سب سے بڑا دنگل انسان کے دماغ کے اندر ہوتا ہے۔‘‘

کمزور دل ڈاکٹر

انہوں نے 1988ء میں کنگ ایڈورڈ کالج سے میڈیکل گریجویشن مکمل کی اور سائیکاٹری (ذہنی امراض) کے شعبے میں مہارت حاصل کی۔ اس کے متعلق بتاتے ہیں، ’’میں نے کچھ عرصہ سرجری میں بھی کام کیا۔ میری پروفیسر تھیں خالدہ عثمانی صاحبہ،انہوں نے میرے رویے کو دیکھ کر کہا کہ نہ تو تم کسی کو کٹ لگا سکتے ہو اور نہ سٹیچنگ کر سکتے ہو، اس لیے تمھارے لیے بہترہے کہ نفسیات اور ذہنی امراض کے شعبے میں چلے جاؤ۔ چناں چہ میں اس طرف آ گیا۔ یہاں بھی میرا زیادہ دل نہیں لگتا تھا، دراصل میں یقین رکھتا تھا کہ انسان کو اس کام کے لیے بنایا گیا ہوتا ہے جو وہ کرے تو اسے تھکاوٹ نہ ہو، مجھے لگتا تھا کہ میں تھک جاتا ہوں اس کام میں۔

مزاح نگاری اور ڈرامہ نویسی کی مصروفیات کی وجہ سے دونوں چیزوں کو ساتھ لے کر چلنا مشکل ہو رہا تھا، اس لیے میں نے ڈاکٹری چھوڑ دی۔ خیال تو تھا کہ پھر کبھی پلٹ کر اس شعبے میں دوبارہ آؤں گا، کیونکہ ڈاکٹری بھی پسند تھی مجھے، لیکن ابھی تک موقع نہیں ملا۔ ہو سکتا ہے کبھی دوبارہ یہ کام شروع کر دوں۔ میڈیکل کی تعلیم سے محنت کرنا سیکھا ہے۔‘‘

’بھکاری نہیں، تخلیق کار بنو‘

ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں، ’’میری کتابیں آنا شروع ہوئیں تو ان کو بہت مقبولیت ملی۔ کالم نگاری اور ڈرامہ نگاری کی وجہ سے بھی شہرت ملی۔ میں باہر جاتا تھا تو میرے مداح اردگرد جمع ہو جاتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دور میں مجھے جو مقبولیت ملی، وہ پھر نہیں ملی۔‘‘ ہم نے پوچھا، کم عمری میں شہرت اور پذیرائی ملنے پر آپ خراب نہیں ہوئے؟ ان کا کہنا تھا، ’’دراصل میں نے کبھی نہیں سوچا کہ میں نے کوئی بہت بڑی چیز کی ہے، جس پر اکتفا کر کے بیٹھ جاؤں۔

جو کام ہو جائے میں اس کو ایک طرف کر دیتا ہوں اور اپنی توجہ اگلے پراجیکٹ پر مرکوز کر لیتا ہوں۔ میرے لیے تو وہ چیز ہے جو ابھی میں نے کرنی ہے، جو ہو چکا وہ تو اب لوگوں کے لیے ہے۔ ہمارے استاد ہوتے تھے یاور حیات صاحب پی ٹی وی میں، وہ کہا کرتے تھے کہ کوئی اچھا کام کرو تو داد مانگنے باہر مت جاؤ، کیوں کہ جو باہر جاتا ہے وہ بھکاری ہوتا ہے، اس لیے بھکاری نہیں بلکہ تخلیق کار بنو۔ تخلیق خود اپنی داد ہوتی ہے۔‘‘

مقبول ترین پروگرام

ڈاکٹر یونس بٹ نے پی ٹی وی کے لیے ’’دنگل‘‘، ’’میں بیمار نہیں ہوں‘‘ ، ’’ لاٹھی‘‘ ، ’’چکر پہ چکر‘‘ اور دوسرے ڈرامے لکھے، لیکن جو مقبولیت ’’فیملی فرنٹ‘‘ کو ملی اس کی مثال نہیں ملتی۔ پی ٹی وی ورلڈ شروع ہوا تو ثمینہ احمد نے ان سے کہا کہ اس کے لیے ایک ڈرامہ لکھنا ہے۔ چناں چہ انہوں نے ’’فیملی فرنٹ‘‘ کے نام سے ایک خاندان پہ مبنی سٹ کام لکھا، جو کئی برس چلا۔ اسی طرح نجی ٹی وی چینل کے لیے لکھے گئے سیاسی مزاحیہ پروگرام ’’ہم سب امید سے ہیں‘‘ کو بھی شہرت ملی۔ کہتے ہیں، ’’اس میں ہم نے کئی تجربے پہلی مرتبہ کیے، جن کو پسند کیا گیا۔ 2002ء کے الیکشن کے لیے کچھ سیاسی کامیڈی پروگرام لکھنے تھے، لیکن یہ اتنے مقبول ہوئے کہ پھر 14 برس تک یہ چلتا رہا۔‘‘

دور حاضر میں ٹی وی ڈراموں اور شوز کے غیر معیاری ہونے کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ’’دراصل اب کوئی بھی چینل پروگرام بناتے ہوئے صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس پہ ریٹنگ ملے گی یا نہیں، اس کی وجہ سے ان کا معیار گر گیا ہے۔ تھیٹر اس وقت خراب ہوا تھا جب وہاں آنے والے لوگوں کی پسند کے مطابق اس کو بنایا گیا۔ یہی حال اب ٹی وی کا ہوا ہے۔ اب اس چیز کو مدنظر نہیں رکھا جاتا کہ لوگوں کو کیا دکھانا چاہیے، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کیا دیکھنا پسند کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ لکھنے والوں کے پاس ان سے اچھے اچھے آئیڈیاز ہوں لیکن موجودہ کلچر میں ان کو آزادی نہیں دی جاتی کہ اپنے آئیڈیاز پہ مبنی پروگرام بنائیں۔‘‘

مزاح برائے اصلاح

ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں، ’’اصل میں طنز و مزاح ایک طرز زندگی ہوتا ہے۔ آپ کا انداز بیان ایسا ہونا چاہیے کہ دوسرے کو تکلیف نہ ہو، آپ کسی کی خامیاں یا کمزور پہلوؤں کو اس طرح بیان کریں کہ اس پہ شرمندہ ہونے کے بجائے اس کو ہنسی آئے اور وہ سوچے کہ ہاں یار اس کو مجھے ٹھیک کرنا چاہیے۔ میں نے اپنی تحریروں میں یہ انداز اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ ان کے مطابق اچھا لطیفہ اچھے شعر سے طاقتور ہوتا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’جب میں نے طنز و مزاح لکھنا شروع کیا تو اس کو چھوٹی چیز سمجھا جاتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ کوئی صنف سخن چھوٹی بڑی نہیں ہوتی، بلکہ لکھنے والا بڑا یا چھوٹا ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر مرزا غالب شعر لکھے گا تو وہ بڑا شعر ہو گا لیکن عام شاعر اس معیار کا شعر نہیں لکھ سکتا۔ یہی بات طنز و مزاح پہ بھی صادق آتی ہے۔ آپ دیکھیں ملا نصر الدین کے جو واقعات ہیں، ان میں کتنی حکمت و دانش اور سچائی ہے، ان کا اثر بھی دیرپا ہوتا ہے اور یہ مختلف چیزوں کی بہت اچھے طریقے سے وضاحت کرتے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ایک اچھا لطیفہ، اچھے شعر سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔‘‘ مزاح نگاری میں ان کو مشتاق احمد یوسفی اور ابن انشا پسند ہیں۔

’متاثر ہونا فطری بات ہے‘

ہم نے پوچھا آپ پر الزام لگتا ہے کہ آپ نے اپنی تحریروں میں مشتاق احمد یوسفی کو نقل کیا ہے، اس میں کتنی سچائی ہے؟ ان کا کہنا تھا، ’’میں نے مشتاق احمد یوسفی کو پڑھا تو بہت زیادہ ان کے اثر میں آ گیا۔ میں ان کی طرح جملے بنانے کی کوشش کرتا تھا۔ لیکن سال چھ مہینے ان کا بہت زیادہ اثر رہا مجھ پر، پھر میں اپنے پرانے انداز پر واپس آ گیا۔ یہ فطری بات ہے کہ آپ اپنے عہد کے بڑے لکھاریوں سے متاثر ہوتے ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی آپ کے دور میں لکھ رہے ہوں اور آپ ان سے متاثر نہ ہوں۔ لیکن اس کو اسی انداز میں لینا چاہیے، نقل کہنا غلط ہے۔

میں نے فیملی فرنٹ لکھا تو بعد میں بہت سے لوگوں نے اس طرح کے پروگرام لکھے، اس طرح میرے سیاسی مزاحیہ شو کے انداز پر بھی کئی پروگرام بنائے گئے۔ لیکن میں نے ان لوگوں کو یہ نہیں کہا کہ آپ میری نقل کر رہے ہیں، کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ لوگ اچھے کام سے متاثر ہوتے ہیں، اس لیے یہ فطری بات ہے۔‘‘

مشکلات کی لذت

ڈاکٹریونس بٹ کہتے ہیں، ’’میں زندگی کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہوا ہوں چاہے مشکل وقت ہویا آسان، میں اس میں بیمار ہوں یا تندرست۔ مشکلات کی اپنی لذت ہوتی ہے۔ مجھے اپنے کام کے علاوہ کوئی چیز ایکسائٹ نہیں کرتی اس لیے میں اپنا وقت دوسری چیزوں میں ضائع نہیں کرتا۔ آئندہ ایک دو سال میں نے انٹرٹینمٹنٹ انڈسٹری کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر یونس بٹ کی شادی 1999ء میں ہوئی۔ تین بیٹوں اسبق یونس، اکبریونس ، اذان یونس اور ایک بیٹی کے والد ہیں۔ کہتے ہیں، ’’کھانا وہ پسند ہے جس میں ساتھ کھانے والے میری پسند کے ہوں۔ فیملی اور بچوں کے ساتھ وقت گزار کے لطف اندوز ہوتا ہوں۔‘‘

تصانیف: خندہ کاریاں، مزاح بخیر، مزاحیات، بٹ صورتیاں، شناخت پریڈ، خندہ پیش آنیاں، خندہ زن، نوک جوک، بٹ پارے، عکس برعکس، جوک در جوک، حوائیاں، شیطانیاں، ہم سب امید سے ہیں، یہ دنیا ہے دل والوں کی، مزاح پرسی، کلاہ بازیاں، توتو میںمیں، غل دستہ، افرا تفریح، لاف زنیاں، بٹ تمیزیاں، فیملی فرنٹ، گھرمستیاں، لاف پیک، خرمستیاں، مس فٹ، ڈبل ٹربل، مزاح گردی، بٹ کاریاں، سسر ان لاء ، مجموعہ ڈاکٹر محمد یونس بٹ