ڈاکٹر شعیب لاری  کے چار نکات 

پہلا نکتہ۔ہمیشہ سچ بولیں

‎اپنی زندگی کا سب سے اہم اصول یہ بنا لیں کہ کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے کیوں کہ جھوٹ بولنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں قرآن مجید کی سورہ النَمل کی آیت 105، سورہ الزمّر کی آیت3، سورہ آل عمران کی آیت61 اور سورہ نور کی آیت8 کے حوالے بھی دیئے۔ اِن آیات سے صاف ظاہر ہے کہ جھوٹ بولنے والا اللہ کے عذاب اور غصے کو دعوت دیتا ہے جس سے ہر مسلمان کو ہر حالت میں پناہ مانگنی چاہیے۔ سچ، اعتماد کی بنیاد ہے اور اعتماد ذاتی تعلقات اور ہر اچھے کام کو مضبوط کرتا ہے۔ اس کو یوں سمجھ لیں کہ اگر ایک شخص 99.9 فی صد جھوٹ نہیں بولتا تو اِس کا صرف 0.1 فی صد جھوٹ آپ کے باہمی تعلقات اور کام میں فرق ڈال دے گا اور اعتماد کی پوری عمارت متزلزل ہو جائے گی۔ہر وقت اور ہر معاملے میں سچ بولنے کی کوشش آپ کو ہمیشہ غلط کاموں سے روکنے میں معاون ہوگی۔ آپ زندگی بھر دوسرے تمام دنیاوی اور دینی امور میں بھی دیانت داری کا مظاہرہ کریں گے اور کبھی کسی کی عدم موجودگی اُس کی میں برائی نہیں کریں گے جو بجائے خود بہت بڑا گناہ ہے۔
‎ ۰ آپ جس ملک میں رہتے ہیں اس میں تو سب سے بڑا جرم ہی جھوٹ بولنا ہے۔ اِس لئے یہاں اِس اصول پر عمل کرنا وقت کی بڑی ضرورت ہے۔

دوسرا نکتہ۔پابندی سے نماز ادا کریں

‎انہوں نے دوسری نصیحت یہ کی کہ کبھی نماز کی ادائیگی سے غفلت نہ کریں بلکہ کوشش کر کے باجماعت ادا کریں۔ ہمارے دین میں نماز وقت پر اور پابندی سے ادا کرنا فرض ہے جو ہمارے ایمان کی بنیاد بھی ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہماری ہر چیز کا انحصار اللہ اور آخرت پر ایمان ہے۔ اگر ایمان ہمارے دین کا دل ہے تو نماز اُس دل کی سانس یا دھڑکن ہے۔ جب آپ دن میں پانچ بار نماز پڑھتے ہیں تو آپ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے ایمان کا اعادہ کرتے ہیں۔ قرآن میں 67 مرتبہ نماز کا ذکر آیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی نماز کے بڑے فائدے ہیں۔ مثلاً :
‎ ۰ یہ آپ کو بے حیا ئی اور فحاشی سے روکتی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے سورہ عنکبوت کی آیت 45 کا حوالہ بھی دیا۔
‎ ۰ نماز ادا کرنے سے ایمان میں تازگی رہتی ہے۔
‎ ۰ اس سے زندگی میں نظم وضبط اور احساس ِ ذمے داری پیدا ہوتا ہے جو زندگی کے ہر کام میں مدد دیتا ہے اور قناعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
‎ ۰ نماز آپ کی زندگی کو گھڑی کی طرح وقت کا پابند بناتی ہے اور یوں آپ پابندیوقت کے عادی ہو جاتے ہیں۔
‎ ۰ نماز کی ادائیگی سے آپ کی جسمانی اور ذہنی صحت کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔
‎ ۰ دعا نماز کا اہم حصہ ہے۔ دعا میں آپ اللہ سے براہ راست بات کرتے ہیں اور جو چاہیں مانگ سکتے ہیں۔ نماز ہی میں آپ کا اللہ سے براہ راست تعلق قائم ہوتا ہے۔
‎ ۰ نمازوں میں سب سے اہم، نماز ِ جمعہ ہے۔ کبھی بھی جمعے کے خطبے کو سننا نہ بھولیں۔ یہ جمعے کی نماز کا لازمی حصہ ہے جس کا سننا فرض ہے۔ اس لئے کوشش کیجئے کہ خطبہ شروع ہونے سے پہلے ہی مسجد میں پہنچ جائیں۔کوشش کریں کہ آپ کی تمام نمازیں مسجد میں باجماعت ادا ہوں۔ مسجد میں جانے سے جہاں آپ کو بروقت ہر نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا موقع ملے گا وہیں دوسرے نمازیوں سے ملنے اور تعلقات قائم کرنے، ایک دوسرے کے حالات جاننے، ایک دوسرے کے ساتھ اخوت اور بھائی چارے کے تعلقات قائم کرنے کے مواقع بھی ملیں گے۔
‎انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نماز کیسے ادا کی جائے۔ اُن کا کہنا تھا:
‎ ۰ جب نماز پڑھیں تو یہ تصور کریں کہ آپ اللہ کے سامنے کھڑے ہیں اور یہ آپ کی آخری نماز بھی ہو سکتی ہے۔ یہ تصور آپ کی کیفیت کو بدل دے گا اور آپ میں خشوع و خضوع اور گریہ وزاری کی کیفیت پیدا ہوگی۔
‎ ۰ آپ نماز میں جو کچھ پڑھتے ہیں، اُس کا ترجمہ اِس طرح یاد کر لیں کہ جب آپ نماز پڑھ رہے ہوں تو اس کے ہر لفظ کا مفہوم آپ کی سمجھ میں آرہا ہو۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کی توجہ صرف نماز اور اس میں ادا کئے جانے والے الفاظ پر مرکوز رہے گی۔
‎ ۰ مسجد میں نماز ادا کرنا افضل ہے لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو دفتر یا گھر میں، جہاں بھی ہوں، باجماعت نماز کا اہتمام ضرور کریں اور گھر کے افراد کے ساتھ ایک یا دو نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کرنا معمول بنا لیں۔ اس طرح بچوں کو بھی جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی عادت ہو جائے گی۔ نماز کے اختتام پر گھر کا ہر فرد کوئی ایک دعا اونچی آواز میں مانگے اور باقی سب اس پر بلند آواز میں آمین کہیں۔
‎ ۰ نماز کے بعد یہ بھی معمول بنائیں کہ پانچ یا دس منٹ کے لئے کسی قرآنی آیت یا کسی حدیث کو پڑھ کر اس کا مفہوم بیان کیا جائے۔ اس کا آغاز نماز کے فضائل سے کیا جا سکتا ہے۔

تیسرا نکتہ۔ پسندیدہ شخصیت بنیں

‎ان کا تیسرا نکتہ یہ تھا کہ دوسروں کی نگاہ میں پسندیدہ شخصیت بنیں۔ انہوں نے کہا کہ مَیں نے پیشہ ورانہ زندگی کی ترقی میں اس کے بڑے فائدے دیکھے ہیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ بڑے بڑے ذہین انجینئر بھی انتظامیہ کی سیڑھیاں نہیں چڑھ پاتے اگر ان کے اخلاق اچھے نہ ہوں اور اُن کی فرم یا ادارے میں انتظامیہ اور دوسرا عملہ انہیں پسند نہ کرتا ہو۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگ بہت جلد اگلے عہدوں پر ترقی پا جاتے ہیں جو ذہین اور اسمارٹ ہونے کے ساتھ سب کی نظروں میں پسندیدہ شخصیت کے بھی مالک ہیں۔ یہی لوگ آگے جا کر اپنی کمپنیوں کے اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچتے ہیں۔ اس میں استثنیٰ ہو سکتا ہے لیکن زیادہ تر بااخلاق لوگ ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ ایسے لوگ صرف پیشہ ورانہ زندگی ہی میں کامیاب نہیں ہوتے بلکہ عام زندگی میں بھی مقبول اور مطمئن رہتے ہیں۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اعلیٰ اور اچھے اخلاق کا ہونا ہمارے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے۔ ہمارے لئے اچھے اخلاق کا مالک ہونا اتنا ہی لازمی ہے جتنا نماز، روزہ، زکوٰة، صدقہ، حج اور دیگر اچھے کام کرنا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ مَیں گھر میں اکثر کہتا ہوں کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ایک وہ جن کو لوگ پسند کریں اور دوسرے وہ جن سے لوگوں کو اذیت پہنچے یا جو پسند نہ کئے جاتے ہوں۔ آپ ایسے لوگوں کو جانتے ہوں گے جن کے بارے میں آپ کو کہنا پڑتا ہوگا کہ کاش! ہم ان سے کبھی نہ ملے ہوتے۔ اور بعض ایسے اچھے اور خوش اخلاق ہوتے ہیں کہ جن سے مل کر آپ کو خوشی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ زندگی بھر یاد رہتے ہیں۔ اچھے اور پسندیدہ بننے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے چہرے پر مسکراہٹ ہو، ہمیشہ دوسروں سے اچھی بات کہیں۔ صبر اور توجہ کے ساتھ دوسروں کی بات سنیں اور ان کی مدد کریں۔ اپنی زندگی سے غصہ ختم کر دیں، غصہ اسلام میں حرام ہے۔ دوسروں کے ساتھ ہمیشہ نیکی کرنے کی کوشش کریں اور کبھی اُن کو اس کا احسان نہ جتائیں۔ ہمیشہ عمدہ اور اچھی باتیں کریں۔ پسندیدہ فرد بننے کا مطلب ہرگز یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اپنے اصولوں یا عقیدے پر سمجھوتا کیا جائے۔

‎ڈاکٹر شعیب لاری نے اپنے تجربے کی روشنی میں متعدد ایسے گُر اور کلیدی باتیں بتائیں جنہیں اختیار کر کے آپ دوسروں کے لئے پسندیدہ شخصیت بن سکتے ہیں۔ وہ اچھی باتیں یہ ہیں:
‎۰ آپ دفتر جائیں یا گھر آئیں، کسی سے ملیں یا کوئی آپ سے ملے، ہمیشہ مسکرائیں۔ مسکراہٹ وہ پہلی سیڑھی ہے جو آپ کی شخصیت کو دوسروں سے ممتاز کر کے بلندی کی طرف لے جاتی ہے۔
‎ ۰ ہمیشہ خندہ پیشانی سے، نرم اور مہذب لہجے میں بات کریں۔
‎ ۰ اپنی شخصیت سے غصے کا عنصر نکال دیں۔
‎ ۰ اگر آپ کسی سے کسی وجہ سے کوئی اچھی بات نہیں کر سکتے تو بہتر ہے کہ چپ رہیں۔
‎ ۰ کسی کو بھی اپنے سے کم تر نہ سمجھیں اور نہ ہی کبھی کسی پر طنز کریں یا کسی کا مذاق اُڑائیں۔
‎ ۰ ملازمت میں اگر آپ منیجر یا کسی اچھے عہدے پر ہیں تو ہمیشہ اپنے ماتحتوں کا خیال رکھیں۔ اُن کے غم اور خوشی میں اُن کا ساتھ دیں، ان کی حوصلہ افزائی کریں اور ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے رہیں۔
‎ ۰ گھر میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔ ان کے ساتھ محبت کا اظہار کریں اور ان کا خیال رکھنے کے ساتھ ان کی تربیت بھی کرتے رہیں۔
‎ ۰ اپنا یہ معمول بنا لیں کہ صرف اور صرف اللہ کی رضا کی خاطر ہمیشہ، ہر شعبے اور ہر حالت میں ضرورت مند افراد کی امکانی حد تک مدد کرنا ہے۔

چوتھا نکتہ۔مولانا مودودی کی کتاب خطبات کا مطالعہ کریں

‎انہوں نے چوتھی نصیحت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اب مَیں آپ کو ایک ایسی کتاب کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جس نے میری زندگی پر گہرے اور مثبت اثرات مرتب کئے اور مجھے اسلام کی صحیح روح اور عقیدے سے روشناس کرایا۔ اِسے مَیں نے سب سے پہلے چودہ یا پندرہ سال کی عمر میں پڑھا تھا اور آج تک پڑھتا چلا آرہا ہوں۔ قرآن ہماری الہامی کتاب ہے اور ہمیں اس کو اچھے ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھتے رہنا چاہیے۔ لیکن مَیں نے قرآن میں بیان کئے گئے عقیدے، تعلیمات اور عبادات کو جس بہتر انداز اور آسان اردو میں جس کتاب سے سمجھا، وہ بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ”خطبات“ ہے جس کے مصنّف عالم اسلام اور دنیا کے مشہور اسکالر، مصنّف اور مفکر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں۔ اِس کتاب میں مولانا نے عقیدے اور ساری عبادات، نماز، روزہ، حج اور زکوٰة کی ضرورت کو نہایت عقلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے۔ آپ اسے تسلسل کے ساتھ پڑھتے جائیے، اپنی زندگی میں خود تبدیلی محسوس کریں گے۔ مجھے اس سے بڑا فائدہ پہنچا اسی لئے مَیں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اسے پڑھیں۔ اس کے انگریزی میں دو ترجمے ہوئے ہیں۔ ایک قدیم ہے جو "Fundamentals of Islam” کے نام سے ملتا ہے اور دوسرا، حال ہی میں شائع ہوا ہے اور پہلے سے بہتر ہے، وہ "Let us be Muslims” کے نام سے موجود ہے۔ مَیں ”خطبات“ اور اس کا ترجمہ اپنے بیٹے کی شادی کی خوشی میں تحفے کے طور پر آپ سب شرکاءکو پیش کرنا چاہتا ہوں۔ آپ جب یہاں سے جائیں تو یہ تحفہ لےنا نہ بھولیں۔ مولانا نے اپنی سیکڑوں کتب کے ساتھ ساتھ ”توحید، رسالت اور زندگی بعد از موت کا عقلی ثبوت“ کے نام سے ایک مختصر کتابچہ بھی لکھا ہے جس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے اور جس کا مطالعہ وقت کی ضرورت ہے۔ مولانا مودودی کا سب سے بڑا کام اُن کی مشہور ِزمانہ تفسیر ”تفہیم القرآن“ ہے جس کے انگریزی کے علاوہ دنیا کی زیادہ بولی جانے والی درجنوں زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں اور جو اِس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی قرآن کی چند تفاسیر میں سے ایک ہے۔ اس کا بھی انگریزی ترجمہ ہو چکا ہے۔ مجھے ”تفہیم القرآن“ کے مسلسل مطالعے سے بھی بڑا فائدہ ہوا ہے اس لئے آپ سے بھی کہوں گا کہ اس کو پڑھیں۔ اس کا مقدمہ تو مولانا کی شاہکار تحریر ہے، جس کا ترجمہ
"Introduction to the Understanding of the Quran” کے نام سے موجود ہے۔
‎اُنہوں نے تقریب میں موجود غیرمسلموں کو مخاطب کرتے ہوئے سفارش کی کہ وہ مولانا کی کتاب ”رسالہ دینیات“ پڑھیں، جس کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکاہے اور جو یہاں موجود ہے۔

بینک بیتیاں- روحانیت اور سلمان (دوسرا حصہ)

پیر سے مجھے دوسری برانچ میں جوائننگ دینی تھی اسلئے سلمان سے میری فون پر تفصیلی بات ہوئی۔ میں بیعت کیلئے بالکل بھی تیار نہیں تھا یہ بات میں نے سلمان کو بتادی اور یہ بھی بتایا کہ نائب صاحب نے میری پوری رپورٹ نکال کر ان صاحب کو پیش کی ہے جس سے مجھے بہت شرمندگی ہوئی اور مجھے لگا کہ کسی کے عیوب اس طرح موجودگی میں ڈسکس نہیں کرنے چائیے ہیں سلمان اس بات کو سنکر خاموش ہوگیا۔ کہنے لگا تم پھر بھی کوشش کرکے انکے ذکر میں شرکت کرو مجھے یقین ہے تمہیں بہت فائدہ ہوگا اور ان صاحب کے حلقے میں بہت جلد روحانی ترقی ملتی ہے ۔ میں نے سلمان سے پوچھا آپ کیوں ان صاحب کے ذکر میں شرکت نہیں کرتے تو کہنے لگا میری بات چھوڑو میرا معاملہ دوسرا ہے اور تمہیں یہ بات ابھی سمجھ نہیں آئے گی ۔
اگلے ہفتے میں بینک کے بعد سیدھا انکی مسجد میں پہنچ گیا ابھی عشاہ کی نماز میں کافی دیر تھی میں مسجد میں وضو کرکے بیٹھ گیا اور درود شریف پڑھنے لگا۔ اذان کے بعد عشاہ کی نماز ہوئی اور پھر ذکر شروع ہوگیا۔ ان صاحب نے مجھے اشارے سے پاس بلایا اور ذکر خفی کا طریقہ بتایا۔ سلطان باہو کی کافی” الف اللّه چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہو” ٹیپ ریکارڈر پر چلنا شروع ہو گئی اور سب دل میں اسم ذات کا ذکر کرنے لگے کچھ ہی دیر میں میرے پیر سن ہوگئے اور باقی کے ذکر میی اپنے پیروں کو ہلا ہلا کر جگاتا رہا ۔ نائب صاحب مجھے بار بار کچھ اچھی نظروں سے نہیں دیکھ رہے تھے ۔ ذکر کے بعد چائے کا دور ہوا اور مٹھائی کھلائی گئی۔ میں نے سر سے ٹوپی اتار کر جیب میں رکھ لی تھی اچانک کسی نے میرے سر پر ٹوپی رکھ دی پلٹ کر دیکھا تو نائب صاحب کھڑے تھے کہنے لگے مرشد کے سامنے سر کبھی ننگا نہیں کرتے۔
اگلے جمعرات میں پھر بینک سے ذکر کیلئے پہنچ گیا باقی سب کچھ ویسا ہی تھا تمام ذکر میں توجہ پیروں کو جگانے پر مرکوز رہی باقی ذکر کا کچھ نہیں پتا چلا۔ ذکر کے بعد گفتگو کا سلسلہ چل رہا تھا تو میں گفتگو سننے کے ساتھ دل میں درود شریف پڑھ رہا تھا اچانک ان صاحب نے میری طرف غور سے دیکھا اور سر ہلایا مجھے ایسا لگا جیسے کہہ رہے ہوں شاباش اچھا کررہے ہو۔ وہ صاحب جب اٹھکر چلے گئے لیکن میں نے اس دفعہ ٹوپی سر سے نہیں اتاری کیونکہ میں پچھلے ہفتے والے واقعےکو بھولا نہیں تھا اسی اثناء میں ایک ذاکر سے باتیں کرنے لگا تو اچانک کسی نے پیچھے سے کندھوں کو پکڑ کر میرا رخ پھیر دیا پلٹ کر یکھا تو نائب صاحب کھڑے تھے کہنے لگے مرشد کی طرف پیٹھ نہیں کرتے میں نے بولا صاحب تو جا چکے ہیں تو نائب صاحب بولے مرشد اس وقت ہجرے میں تشریف فرما ہیں اور آپکی پیٹھ ہجرے کیطرف تھی۔
میرے اندر ایک غصہ اور جھنجھلاہٹ کی کیفیت طاری ہوگئی کہ یہ نائب صاحب اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں پہلے مجھ سے پوچھے بغیر میری رپورٹیں نکالتے ہیں جو کے اخلاقی طور پر غلط بات ہے پھر ذکر میں گھوریاں مار تے ہیں کبھی زبردستی سر پر ٹوپی رکھ دیتے ہیں اور کبھی بغیر متوجہ کئے رخ موڑ دیتے ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نمی دانم چہ منزل بود – امیر خسرو

29

Nami danam chi manzil bood shab jaay ki man boodam
Baharsu raqs-e bismil bood shab jaay ki man boodam
Pari paikar nigaar-e sarw qadde laala rukhsare
Sarapa aafat-e dil bood shab jaay ki man boodam
Khuda khud meer-e majlis bood andar laamakan Khusrau
Muhammad shamm-e mehfil bood shab jaay ki man boodam

English Translation

I wonder what was the place where I was last night
All around me were half-slaughtered victims of love
tossing about in agony
There was a nymph-like beloved with cypress-like form
and tulip-like face
Ruthlessly playing havoc with the hearts of the lovers
God himself was the master of ceremonies in that heavenly court
oh Khusrau, where (the face of) the Prophet too was shedding light
like a candle.

گوجال: جہاں سے پاکستان ‘شروع’ ہوتا ہے – سید مہدی بخاری

میں پاکستان کی سرحد پر کھڑا تھا۔ ارد گرد ویرانی تھی، دور تک خاموشی تھی، اور آسمان سے برف گر رہی تھی۔ نومبر کے دوسرے ہفتے کا آغاز تھا۔ ایسا سفید دن تھا کہ میری سرخ جیپ اور سرمئی رنگ کی جیکٹ کے علاوہ منظر میں کوئی رنگ نہ تھا۔ جو رنگ تھے، ان کو برف ڈھانپ چکی تھی یا ڈھانپے جا رہی تھی۔ کوئی سرحدی فوجی چوکی تھی آس پاس، نہ ہی کسی بشر کا نشان۔ یہ دوست ملک چین کی سرحد تھی۔ درہ خنجراب پر کھڑے ہوئے میرا رُخ چین کی طرف تھا۔

شاہراہ قراقرم کا پاکستان کی حدود میں اختتام تھا اس سے آگے یہ شاہرہ کراکل جھیل کے نیلے پانیوں کے کناروں سے ہوتی، خانہ بدوشوں اور دو کوہان والے جنگلی پہاڑی اونٹوں کی ہمسفری میں کاشغر تک چلی جاتی ہے، اور وہیں سے یارقند کو راستے نکلتے ہیں تو ایک راہ تکلمکان صحرا کو مڑتی ہے، جو ریتیلے ٹیلوں کا دنیا کا دوسرا بڑا صحرا ہے۔

اردگرد سرحد پر باڑ لگی تھی۔ اچانک سفید منظر میں چند بھیڑوں کا ایک ریوڑ آس پاس کہیں سے آ نکلا، اور سڑک پر چلتے میرے قریب سے گزرتا چین کی حدود میں داخل ہو کر کناروں پر خشک گھاس کی ڈھلوانوں پر پھیلنے لگا۔ گندمی مائل گھاس کے تنکوں پر برف کے گولے پھل کی طرح سجے تھے۔ بھیڑیں انہیں سونگھتیں، منمناتیں، اور پھر آگے بڑھ جاتیں۔ شمالی علاقوں کے معمول کے مطابق چرواہا غائب تھا۔ پرندوں اور جانوروں کی کوئی سرحد نہیں تھی، مگر میری سرحد یہی تھی جہاں میں برف بھرے دن میں کھڑا تھا۔

55642d00d263f55642d13d5a6655642d0e24d0755642d13d5a6655642d1cc35db55642d1f74ef855642d2a7629155642d2ad43cf55642d2b3d87355642d2b9fa9055642d2ba7e0755642d2c628a255642d2e58c5e55642d2f8f88e55642d2f80cf655642d2f6863a55642d14bb7ea55642d16ee59f55642d22ca24e55642d26ca27055642d29a9eb755642d29d0fb455642d32c2d6c55642d142f41d55642d147e0ab55642d218f8cd55642d240ea5f55642d2711e6055642d2829fcb55642d211437355642d249569755642d13d5a66

املتاس کا ایک زرد پُھول بانو قدسیہ کے سفید بالوں پر – مستنصر حسین تارڑ

املتاس کا ایک زرد پُھول بانو قدسیہ کے سفید بالوں پر
مستنصر حسین تارڑ
15-02-2017
اشفاق صاحب کی وفات کے بعد بانو آپا حقیقتاً بھری دنیا میں اکیلی رہ گئیں۔۔۔جس دیوتا کے چرنوں میں وہ ہمہ وقت عقیدت اور اطاعت گزاری کے پھُول چڑھاتی تھیں، وہ اپنا سنگھان چھوڑ کر چلا گیا تھا۔۔۔صرف اُن کے بیٹے اسیر نے اُن کا ساتھ نہ چھوڑا، بقیہ دو بیٹے بھی اپنی ماں کے وجود سے بے خبر اپنی اپنی حیات کے بکھیڑوں میں اُلجھے رہے، منظور جھلّے نے کہا تھا کہ :
واجاں ماریاں کئی وار وے۔۔۔ کسے نے میری گَل نہ سُنی
اُنہوں نے بھی آوازیں بہت دیں پر کسی نے اُن کی بات نہ سُنی۔۔۔ نہ اشفاق صاحب کے رشتے داروں نے اور نہ ہی اُن کی کسی بہو نے۔۔۔بلکہ اُن پر اپنے دروازے بند کرلئے۔۔۔بانو کی زندگی یونانی المیہ ڈراموں سے بھی کہیں بڑھ کر الم ناک اور دُکھ بھری تھی۔ اشفاق صاحب کے رخصت ہونے پر وہ کبھی کبھار صبح سویرے ماڈل ٹاؤن پارک میں چلی آتیں، اپنا دوپٹہ بار بار سفید بالوں پر درست کرتیں، اپنے دھیان میں مگن چلی جاتیں۔۔۔وہ جون جولائی کے قہر آلود گرم موسم تھے اور پارک میں املتاس کے جتنے بھی شجر تھے اُن پر زرد چینی لالٹینیں روشن ہو گئی تھیں۔ ہوا کا ایک جھونکا سرسراتا آیا، املتاس کے پھولوں کے انبار میں ارتعاش پیدا ہوا اور وہ پھول درختوں سے جدا ہو کر ایک زرد بارش کی صورت دھیرے دھیرے گرنے لگے۔ ان میں سے ایک پھول، ایک زرد تتلی کی مانند ایک بھنورے کی مانند گھومتا اترا اور بانو آپا کے سفید بالوں میں اٹک گیا۔ وہ اُس کی موجودگی سے بے خبر تھیں اور یہ منظر میرے ذہن کے کینوس پر ہمیشہ کے لئے نقش ہوگیا۔۔۔ایک بوڑھی ہیر جس کا رانجھا اُس سے بچھڑ گیا تھا اُس کی اداسی میں گُم اور اُس کے سفید بالوں میں املتاس کا ایک زرد پھول یُوں اٹکا ہوا ہے جیسے وہ اُس کے محبوب کے ہاتھوں کا لکھا ہوا ایک خط ہو اور وہ بے خبر ہے کہ شاید اُس کے رانجھے نے اُسے یہ زرد پریم پتر بھیجا ہے اور تب مجھے محسوس ہوا جیسے اُس املتاس کے زرد پُھول کا رنگ اُن کے بالو میں سرایت کرتا اُنہیں زرد کرتا ہے، اُن کے چہرے پر پھیلتا اُسے سرسوں کا ایک کھیت کرتا ہے اور بانو قدسیہ اُس لمحے ملک چین کی کوئی زرد شہزادی لگ رہی تھی۔۔۔میں نے اس بے مثال زرد تصویر کو اپنے ایک کالم میں نقش کیا۔۔۔چونکہ میں نہ کبھی کسی کو اطلاع کرتا ہوں اور نہ ہی اپنے کالم کی کاپی روانہ کرتا ہوں کہ دیکھئے یہ میں نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ میں کسی کے لئے نہیں صرف اپنے لئے لکھتا
ہوں۔۔۔تقریباً ایک ماہ کے بعد بانو آپا کا ایک خط آیا، اُن کے کسی چاہنے والے نے اُنہیں اس کالم کی فوٹوسٹیٹ روانہ کی تھی، بانو آپا نے جس طور اُس تحریر کو سراہا اُسے میں یہاں نقل کرنے سے گریز کرتا ہوں۔
وہ میرے تینوں بچوں کی شادیوں میں شریک ہوئیں، ہر ایک کی ہتھیلی پر کچھ رقم رکھی۔۔۔اُن کے لئے دعا کی، اُنہیں پیار کیا۔۔۔ اُن کی موت کی خبر اُن تینوں تک نیویارک، فلوریڈا اور ہنوئی میں پہنچی تو وہ کتنے دُکھی ہوئے یہ میں بیان نہیں کرسکتا۔۔۔سُمیر نے کہا، ابّو میں نے ابھی تک وہ نوٹ سنبھال رکھا ہے جو بانو آپا نے مجھے پچھلی عید پر عیدی کے طور پر دیا تھا۔ وہ ہمیشہ میری خوشیوں میں شریک رہیں۔۔۔میری پچھترویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لئے وہ اپنی نرس اور زبیر اکرم کے سہارے چلی آئیں۔ وہ اور عبداللہ حسین صدارت کے لئے میری پسند تھے کہ وہی میرے نزدیک اردو ادب کے سب سے بڑے نثرنگار تھے۔۔۔ جب ابرارالحق اور فریحہ پرویز میری سالگرہ کے گیت گانے کے لئے سٹیج پر آئے تو وہ مسکرانے لگیں، کبھی کبھی سر ہلا کر اُنہیں داد دیتیں۔۔۔جب گلزار صاحب کی آواز سپیکر پر گونجی اُنہوں نے سالگرہ کے حوالے سے کچھ توصیفی کلمات کہے تو پُوچھنے لگیں۔۔۔ یہ کون صاحب ہیں۔۔۔میں نے کہا بانو آپا یہ میرے دوست ہیں۔ یہ کہاں ہوتے ہیں۔۔۔ بعدازاں اُنہوں نے میرے بارے میں کچھ گفتگو کی اور میں جان گیا کہ بانو آپا اب بہکتی جا رہی ہیں، یادداشت اُن کا ساتھ چھوڑ رہی ہے، اُن کی آپ بیتی ’’راہ رواں‘‘ میں قدم قدم پر اُن کے بھٹک جانے کے آثار ہیں۔۔۔ وہ بُھلکڑ ہو گئی تھیں۔۔۔جِی چاہنے کے باوجود میں ’’داستان سرائے‘‘ جانے سے گریز کرتا کہ وہ نہ صرف خود ایک بھولی ہوئی داستان ہیں بلکہ وہ تو اپنی داستان بھی بھول چکی ہیں۔ ایک بار اُن کے ہاں گیا تو بہت دیر کے بعد کہنے لگیں ’’مستنصر تم ہو۔۔۔ تم تو اشفاق صاحب کے ڈراموں کے ہیرو ہوا کرتے تھے۔۔۔بُوڑھے کیوں ہو گئے ہو؟‘‘
’’داستان سرائے‘‘کے آس پاس سب گلی کُوچے خلق خدا سے بھرے پڑے تھے، میمونہ کا کہنا تھا کہ بانو آپا کا جنازہ اس لئے اتنا بڑا تھا کہ لوگوں نے اُنہیں ہمدردی کا ووٹ ڈالا تھا۔۔۔جو کچھ اُن پر گزری اور اُنہوں نے اُف تک نہ کی، برداشت کیا تو لوگ اُن کے صبر کو سلام کرنے آئے تھے۔ وہ اشفاق احمد کی بیوی کے جنازے پر نہیں۔۔۔بانو قدسیہ کے جنازے پر آئے تھے۔۔۔اگر اُنہیں اس ہجوم کا کچھ اندازہ ہوتا تو وہ وصیت کر جاتیں کہ لوگو مت آنا۔۔۔ میرے جنازے پر کم آنا۔۔۔میرے محبوب کی نسبت میرے جنازے پر کم آنا۔۔۔ پر لوگ کہاں سنتے ہیں، وہ آئے اور بے حساب آئے۔ اور اس کے باوجود بانو آپا نے تُرپ کا آخری پتّا اپنی موت کے بعد یُوں پھینکا۔۔۔ کہ اشفاق صاحب کے قدموں میں دفن ہو گئیں۔ میں نے آگے بڑھ کر جھانکا تو اُن کی قبر بہت گہری تھی، لحد میں وہ اپنے سفید کفن میں روپوش سمٹی سی، سجائی ہوئی، شرمائی ہو ئی پڑی تھیں کہ اُن کے سرہانے اُن کا محبوب سویا ہوا تھا۔۔۔ اور بالآخر اُن کو وصل نصیب ہو گیا تھا۔ اور جب گورکنوں نے کُدالوں سے اُن کی قبر کو مٹی سے بھر دیا اور اُس پر پھول چڑھائے گئے تو مجھے ایک مرتبہ پھر عذرا پاؤنڈ کا وہ نوحہ یاد آگیا جو اختر حسین جعفری نے لکھا تھا۔۔۔
تجھے ہم کس پُھول کا کفن دیں
تو جُدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے
املتاس کا ایک زرد بھنورا پُھول بھی نہ تھا۔۔۔

مستنسر حسین تارڑ

 

Hazrat Baba Fariduddin Ganjshakar Poetry Lyrics

فریدا در درویشی گاکھڑی ، چلاں دنیا بھت
بنھ اٹھائی پوٹلی کتھے ونجاں گھت

فرید یہ درویشی کا راستہ بڑا مشکل ہے،دنیا کا طریقہ اختیار کر لیں
مگر یہ جو درویشی کی پوٹلی اٹھا رکھی ہے اس کو کہاں پھینکوں

جے جاناں تل تھوڑے سنبھل بک بھریں
جے جاناں شوہ ننڈھڑا تھوڑا مان کریں

فرید اگر جانتا ہے کہ سانس تھوڑے ہیں تو احتیاط سے استعمال کر
اگر جانتا ہے کہ مالک بڑا بے نیاز ہے تو تھوڑا مان کر

جے توں عقل لطیف کالے لکھ نہ لیکھ
آپنے گریوان میں سر نیواں کر دیکھ

فرید اگر تیری عقل سلیم ہے تو اپنا دامن برائیوں سے نہ بھر
دوسروں کی عیب جوئی سے پہلے اپنے گریبان میں سر نیچا کر کے دیکھ

دیکھ فریدا جو تھیا : داڑھی ہوئی بھور
اگوں نیڑے آیئا   پچھا رہیا دور

دیکھ فرید جو ہوا سو ہوا تیرے داڑھی سفید ہو گئی ہے
وقت آخر قریب آگیا ہے اور پچھلے دن جلدی جلدی گزر گئے ہیں

جن لوئن جگ موہیا سے لوئن میں ڈٹھ
کجل ریکھ نہ سہندیاں سے پنکھی سوئے بہٹھ

جن آنکھوں نے سارے جہان کو اپنی خوبصورتی سے گرویدہ کر ررکھا تھا وہ آنکھیں میں نے دیکھی ہیں
جو ذرہ برابر کاجل نہیں برداشت کرتیں تھیں مرنے کے بعد پرندوں نے گھونسلہ بناکر وہاں بچے دئیے

فریدا خاک نہ نندیے!  خاکو جیڈ نہ کو ءِ
جِیَوندیاں پَیراں تلے ،  مویاں  اپر ہو ءِ

فریدا خاک کو برا نہ کہیں خاک جیسا کوئی بھی نہیں
زندگی میں پاؤں کے نیچے ہوتی ہے مرنے کے بعد اوپر آجاتی ہے

فریدا جنگل جنگل کیا بھویں ؟ وَن کنڈا مَوڑیں
وَسیِ رَب ہِیا لئے ، جنگل کیا ڈھونڈیں

فریدا تو جنگل جنگل گھومتا پھرتا ہے، ون کے پودوں کے کانٹوں کو توڑتا مڑوڑتا اور سہتا ہے
رب تو تیرے دل میں بستا ہے تو جنگل میں کس کو ڈھونڈتا ہے

فریدا روٹی میری کاٹھ دی ، لاون میری بھکھ
جنھاں کھادی چوپڑی ، گھنے سہن گے دُکھ

فریدا میری لکڑی کی روٹی میری بھوک مٹا دیتی ہے
جنہوں نے گھی والی روٹی کھائی ہے وہ آگے جا کر دکھ سہیں گیں

رکھی سکھی کھا کے ، ٹھنڈا پانی پی
فریدا ویکھ پَرائی چُوپڑی ، نہ تَرسائیں جی

روکھی سوکھی کھا کر اوپر سے ٹھنڈا پانی پی
اے فرید دوسروں کی گھی والی روٹی دیکھ کر اپنا جی نہ للچا

جوبن جاندے نہ ڈراں ،جے شوہ پریت نہ جا
فریدا کتی جو بن پریت بن ، سک گئے کملا

حسن و جوانی کے چلے جانے سے نہ گھبرا جب تک کہ محبوب کی محبت باقی ہے
اے فریدا کتنی ہی جوانیاں مرجھا گئیں کہ اُن کے پاس محبوب کی محبت نہیں تھی

برہا برہا آکھیے، برہا توں سُلطان
فریدا جِت تن برہوں نہ اُپچے سو تن جان مَسان

عشق و محبت کا ہر کوئی دعویٰ کرتا ہے ، عشق تو سلطان ہے
اے فرید جس جسم میں عشق پیدا نہ ہو تو وہ مردہ ہے

فریدا چار گوائیاں ہنڈھ کے ، چار گوائیاں سَم
لیکھا رب منگیسا ، تُوں آیوں کیہڑے کَم

اے فرید دن بھر کے آٹھ پہروں میں سے چار تو کمانے کھانے میں گزارے اور چار سو کر گزار دیئے
لیکن رب نے تو محشر میں پوچھنا ہے کہ تجھے جہان میں کس کام سے بھیچا تھا۔

ہم نے نہیں پیدا کیا انسانوں کو اور جنات کو مگر یہ کہ میری معرفت حاصل کریں۔القرآن

بڈھا ہویا شیخ فرید ، کنبن لگی دیہہ
جے سَو ورھیاں جِیونا ، بھی تن ہوسی کھیہہ

اے فرید تو تو اب بوڑھا ہو گیا ہے تیرا جسم کانپنے لگا ہے
اگر سو سال کی بھی زندگی ہو پھر بھی آخرجسم نے خاک ہونا ہے

فریدا کوٹھے منڈپ ماڑیاں اُساریندے بھی گئے
کوڑا سودا کر گئے ، گورِیں آءِ پئے

دیکھ فرید بڑی بڑی عمارتیں ، محلات و حویلیاں تعمیر کر کرا کر لوگ چلے گئے
کھوٹا سودا کر کے بالاخر قبروں میں جا پڑے ہیں

فریدا کالے مینڈھے کپڑے ، کالا مینڈا وَیس
گناہیں بھریا میں پھراں ، لوک کہن درویش

فریدا میرے کپڑے بھی کالے ہیں اور لباس بھی کالے رنگ کا ہے
میں گناہوں سے بھرا ہوا ہوں اور لوگ مجھے درویش کہتے ہیں

Baba Farid
بابا فرید  الدین گنج شکر