شام میں امریکی فوج اتارنے کی بے چینی

امریکا شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر بہت بے چین ہے، کیونکہ یہ انسانی حقوق کی
خلاف ورزی ہے۔ احتجاج عوام کا جمہوری حق ہے۔ شامی حکومت کے خلاف کسی بھی وقت
کارروائی کے لیے امریکی حکومت صدر اوباما کے آخری اشارے کی منتظر ہے۔ امریکی
حکمران اور عالمی ضمیر شام کے حوالے سے بے چین ہیں، اور بہت سے لوگ جو تجزیے
کررہے ہیں ان تجزیوں کا رخ بھی یہی ہے کہ شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی انتہا
ہوگئی ہے۔ ان کا کہنا بالکل بجا ہے۔ لیکن اب کیا ہونے جارہا ہے ابھی سے اس پر غور کرلیں۔
کچھ چیزوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب میں امریکی افواج اتارنے سے قبل
عراق کی کویت پر چڑھائی ہوئی تھی، افغانستان میں امریکی افواج اتارنے سے قبل بامیان کے
بتوں کو توڑا گیا تھا، اور پاکستان میں ہمنوا حکومت لانے کے لیے نوازشریف کی حکومت کو
برطرف کیا گیا، اور یوں یہاں ایک ایسی حکومت قائم کی گئی جو ہر طرح سے امریکیوں کی
مددگار ہو۔ پھر 9/11 ہوگیا۔

دوبارہ عرب دنیا کی طرف چلیں۔ اب مصر وشام کو کنٹرول کرنے اور اسرائیل کو تحفظ دینے
کے لیے امریکی افواج کی موجودگی ضروری ہوگی۔ انسانی حقوق کے بہت سے حامی ادارے
بھی امریکی فوج کو شام میں اتارنے کی حمایت کررہے ہیں۔ اگر امریکی افواج شام میں اتر
گئیں تو اردن اور لبنان کے راستے ان کی پہنچ اسرائیل اور مصر تک ہوگی۔ یہ فاصلہ بھی
محض ساڑھے سات سو میل ہے۔ اتنے قریب امریکی افواج کی موجودگی کا مقصد محض شام
میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو روکنا نہیں ہوسکتا۔ یہ تجربہ بھی ہے اور ریکارڈ بھی کہ
امریکی کیمیائی ہتھیاروں اور پائوڈرز یا اینتھریکس وغیرہ کے شبہ سے بھی بیمار ہوجاتے
ہیں، یہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد اس سرزمین پر کیا کریں گے! ہمارے خیال میں
امریکی افواج اس خطے میں موجود رہنا چاہتی ہیں، اس کے لیے ان کی موجودگی کا آدھا پونا
جواز تو ہونا ہی چاہیے تھا۔ پاکستان اور افغانستان میں، اور اس سے قبل سعودی عرب اور
عراق میں امریکی افواج کی موجودگی کا جواز نہیں تھا، بلکہ اگر کسی غیر ملکی فوجی قوت
کی موجودگی کی کوئی گنجائش نکلتی ہے تو وہ اقوام متحدہ کی امن فورس ہے، لیکن اقوام
متحدہ کی امن فورس تو بہت پیچھے رہ جاتی ہے، سب کی قیادت امریکی افواج کرتی ہیں، پھر
جب معاملات قابو سے باہر ہوجاتے ہیں تو 26 ملکوں کی افواج لائی جاتی ہیں۔

جس عالمی ضمیر کا ذکر اکثر ہوتا ہے اگر وہ کہیں ہے بھی تو سورہا ہے۔ اسی نیند اور
غنودگی کے عالم میں یہ اس قسم کے فیصلوں کی منظوری دے دیتا ہے، پھر باقی کام امریکی
افواج کرتی ہیں۔ آنے والے دن بڑے اہم ہیں۔ سب مل کر شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال
پر آنسو بہا رہے ہیں اور امریکا کو اپنی فوج شام میں اتارنے کی اجازت دینے کی باتیں
کررہے ہیں۔ وہ مصر میں اخوان کے خلاف کیمیائی گیس کے استعمال پر احتجاج نہیں کررہے،
مظاہرین کو ان کے حق سے محروم کرکے رابعہ عدویہ پر ٹینک چڑھانے اور شہداء کی
لاشیں جلانے پر خاموش ہیں۔ جو اطلاعات سامنے آرہی ہیں وہ یہی بتا رہی ہیں کہ مصری
افواج تمام تر قوت اور امریکی و اسرائیلی حمایت کے باوجود مرسی کے حامیوں اور اخوان
کے سامنے قدم جمانے میں مشکلات محسوس کررہی ہیں، چنانچہ انہیں بظاہر دنیا کی سب سے
بڑی فوجی قوت کی ضرورت ہے، اس کی مدد کے لیے اس کی زمین پر موجودگی ضروری
ہے، اس لیے شام کی صورت حال پر تشویش میں اضافہ ہورہا ہے تاکہ شام میں جلداز جلد
امریکی افواج اتار دی جائیں۔ کون نہیں جانتا کہ یہ اس ملحمتہ العظمیٰ کی تیاری یا آغاز ہے
جس کا ذکر احادیث میں آیا ہے یا ابھی اس میں وقت ہے، لیکن آثار ایسے ہی نظر آرہے ہیں۔
ساری دنیا کی قوتیں اس خطے میں جمع ہورہی ہیں۔ چونکہ ہم اس حوالے سے کوئی واضح علم
نہیں رکھتے اس لیے سمجھتے ہیں کہ شام کی حکومت کو روکنے کے لیے امریکی افواج کو
اتارنا زیادہ خطرناک ہوگا۔اس لیے اسے روکنا زیادہ ضروری ہے۔ پھر بھی اگر خدا کی مرضی
اسی میں ہے کہ وہ یہاں کسی آزمائش میں آئیں تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔

…مظفر اعجاز…