اچھا لطیفہ اچھے شعر سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے – ڈاکٹر یونس بٹ

انٹرویو – حسان خالد

 

 

ایم بی بی ایس مزاح نگار

یہ 90 کی دہائی کے آغاز کی بات ہے، ڈاکٹر محمدیونس بٹ مزاح نگاری میں اپنی پہچان بنا چکے تھے اور بیسٹ سیلرز مصنفین میں شمار ہوتے تھے۔ پی ٹی وی کے لیے لکھے گئے ان کے ابتدائی ڈراموں کو بھی پذیرائی مل چکی تھی۔ اس کے ساتھ ان کی ڈاکٹری بھی چل رہی تھی اور ان دنوں ایک میڈیکل کورس کے لیے انہیں لندن جانا تھا۔ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ مستقل طور پر دونوں شعبوں میں سے کس کا انتخاب کریں، لیکن پھر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان کی مشکل آسان کر دی۔ انہیں ناک، گلے کی کوئی تکلیف ہوئی، جس کا معائنہ کرانے کے لیے وہ اپنے ایک پروفیسر کے پاس گئے جو اس شعبے کے ماہر تھے۔

پروفیسر صاحب نے ان کا معائنہ کرنے کے بعد انہیں اپنی غزلیں سنانا شروع کر دیں اور باہر کہلا بھیجا کہ اندر کوئی اور مریض نہ بھیجا جائے۔ ان کو پروفیسر صاحب پر بڑا ترس آیا کہ اتنے بڑے ڈاکٹر ہونے کے باوجود وہ اپنے کام سے خوش نہیں ہیں، کیوں کہ وہ شاعر بننا چاہتے تھے، لیکن آج انہیں کوئی ایسا شخص نہیں ملتا جسے وہ اپنی شاعری سنا سکیں۔ ڈاکٹر یونس بٹ نے تصور کیا کہ وہ بھی کئی برس بعد سینئر ڈاکٹر بن جائیں گے، لیکن پھر اپنی مزاحیہ تخلیقات سنانے کے لیے لوگ ڈھونڈتے پھریں گے۔ انہوں نے سوچا کامیابی یہی ہے کہ بندہ وہ کام کرے جو اسے پسند ہو، چناں چہ انہوں نے ڈاکٹری کو اس وقت خیرباد کہا اور اپنی تمام توجہ طنز و مزاح کی تخلیق پر مرکوز کر لی۔

’بچپن میں ایک بچہ تھا‘

محمد یونس بٹ نے گوجرانوالہ کے ایک متوسط کاشتکار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس وقت تاریخ پیدائش کو اس طرح یاد رکھا جاتا تھا کہ فلاں جنگ سے اتنے دن پہلے یا فلاں واقعے کے اتنا عرصہ بعد پیدا ہوا۔ جب بچے کو سکول داخل کرایا جاتا تب کوئی بھی تاریخ لکھوا دی جاتی، جو ان کی جنوری 1962ء لکھوائی گئی۔ کہتے ہیں، ’’بچپن میں میں ایک بچہ تھا اور الف بے سے ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔‘‘ گوجرانوالہ کے پہلوان مشہور ہیں، ان کو بھی بچپن میں پہلوانی کا بہت شوق تھا۔ اس کے متعلق بتاتے ہیں، ’’میں کشتی دیکھنے اکھاڑے میں جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ پہلوان سے کشتی سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو اس نے مجھے دیکھ کر کہا، تم بس روزانہ دو کشتیاں دیکھ لیا کرو، تمھاری صحت کے لیے اتنا کافی ہے۔‘‘

دیسی کشتی میں زورآزمائی کے دوران پہلوانوں کے کانوں کا سلامت رہنا ممکن نہیں ہوتا، انہیں بھی پہلوانوں کی طرح کان تڑوانے کا شوق تھا۔ کہتے ہیں، ’’والدہ کو میرے اس شوق کا علم ہوا تو انہوں نے سختی سے روک دیا اور اکھاڑے میں جانے سے بھی منع کر دیا۔ اب سوچتا ہوں کہ اگر وہ مجھے نہ روکتیں تو میں آج کن ٹٹا رائٹر ہوتا۔‘‘ انہوں نے گورنمنٹ جامعہ ہائی سکول سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے ایف ایس کی اور اپنے شہر میں ٹاپ کیا۔

لاہور میں پیدل نوجوان

ایف ایس سی کے بعد میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے وہ لاہور پہنچ گئے جہاں ان کی کوئی جان پہچان نہیں تھی۔ عبدالغنی فاروق گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں اردو کے استاد تھے، جو بعد میں دیال سنگھ کالج لاہور چلے گئے۔ انہوں نے کہا تھا کہ لاہور میں دیال سنگھ کالج آ جانا۔ وہ دیال سنگھ کالج پہنچ کر اپنے استاد سے ملے، جنہوں نے داخلہ فارم جمع کرانے کے لیے اپنے کچھ طالب علموں کو ان کے ہمراہ بھیج دیا۔ یوں ان کا کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ ہو گیا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اس وقت مجھے پتا نہیں تھا کہ یہ کوئی بہت بڑا ادارہ ہے، یہ تو بعد میں جا کر معلوم ہوا کہ میں ایشیا کے عظیم ترین ادارے میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔‘‘

لکھنے کا آغاز بھی اس دور میں ہوا۔ انہیں پیدل چلنے کی بہت عادت تھی، پیدل چلنے کے دوران یہ جملے سوچتے اور پھر ہوسٹل جا کر لکھ لیا کرتے۔ عبدالغنی فاروق نے انہیں مجیب الرحمن شامی کے پاس بھیجا، جن سے ان کا ایسا تعلق استوار ہوا جو آج تک قائم ہے۔ ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں، ’’مجیب الرحمٰن شامی صاحب نے اپنے بچوں کی طرح میرا دھیان رکھا، ان کی موجودگی سے تحفظ کا احساس ہوتا تھا کہ اس بڑے شہر میں کوئی اپنا بھی ہے۔‘‘

ادبی سفر کا آغاز

چائینیز ریسٹورنٹ میں ’حلقہ ادب‘ کا اجلاس ہوا کرتا تھا، انہوں نے بھی وہاں جانا شروع کر دیا۔ وہاں تحسین فراقی، عبدالحفیظ احسن، انجم رومانی اور ڈاکٹر وحید عشرت جیسی علمی و ادبی شخصیات آتی تھیں۔ یہ خاموش بیٹھ کر دوسرے ادیبوں کی تخلیقات سنتے رہتے، پھر ایک دن ان سے کہا گیا کہ اگلی دفعہ آپ بھی اپنی کوئی چیز پیش کریں۔

اگلے اجلاس میں انہوں نے ’’درد‘‘ کے عنوان سے انشائیہ سنایا، جسے بہت داد ملی۔ کہتے ہیں، ’’جب میں انشائیہ پڑھ رہا تھا، وہاں بیٹھے ہوئے لوگ ہنس رہے تھے، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ مجھ سے اچھا نہیں لکھا گیا، جس کی وجہ سے یہ لوگ میری تحریر پر ہنس رہے ہیں۔ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ میں نے کوئی بہت مزاحیہ چیز لکھی تھی، اپنی طرف سے تو میں ایک سنجیدہ تحریر لکھ کر لایا تھا، لیکن چوں کہ طنز و مزاح میرے اندر تھا، اس لیے یہ چیز میری تحریر میں بھی آ گئی۔‘‘ اجلاس میں موجود وحید عشرت نے ڈاکٹر یونس بٹ سے وہ تحریر لے کر مظفر علی سید کو بھجوا دی، جو نوائے وقت ادبی ایڈیشن کے انچارج تھے۔ انہوں نے ادبی ایڈیشن میں یہ تحریر اس نوٹ کے ساتھ چھاپی: ’’اگر کسی کو جاننا ہو کہ انشائیہ کیا ہوتا ہے وہ اس تحریر کو پڑھ لے۔‘‘

ہاسٹل، ایک جنت

ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں، ’’میری زندگی کا اہم حصہ ہاسٹل میں گزرا۔ میری ابتدائی کتابیں اس دور میں آئیں، ڈرامہ نگاری اورکالم نگاری کا آغاز بھی وہاں سے ہوا۔ بنیادی طور پر ہاسٹل کی زندگی مجھے پسند ہے، جہاں آپ سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا اور آپ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ مجھے تو ہاسٹل اور جنت کا منظر ایک جیسا لگتا ہے مثلاً جنت کے بارے میں یہ ہے کہ وہاں کوئی بوڑھا نہیں ہوگا، اس طرح ہاسٹل میں بھی سب نوجوان ہوتے ہیں۔

جنت میں پریشانی تب آئی تھی جب حضرت حوا آئی تھیں، بوائز ہاسٹل میں بھی چوں کہ حوا کی بیٹی نہیں ہوتی اس لیے پریشانی ہاسٹل کے دروازے کے باہر کھڑی رہتی ہے، اندر نہیں آتی۔ میں کہا کرتا ہوں، جو ہاسٹل میں نہیں رہا اس نے اپنی آدھی زندگی ضائع کر دی اور جو ہاسٹل میں رہا اس نے اپنی پوری زندگی ضائع کر دی۔‘‘

دنگل، پہلا ڈرامہ

ہاسٹل کے دنوں میں ہی انہیں ٹی وی کے لیے ڈرامہ لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ انہوں نے ’’دنگل‘‘ کے نام سے پہلا ڈرامہ لکھا اور اسے لے کر مظفر علی سید کے پاس چلے گئے۔ مظفر علی سید نے انہیں آگے اشفاق احمد کے پاس بھیج دیا، جو اس وقت اردو سائنس بورڈ میں ہوتے تھے۔ یہ پیدل چلتے ہوئے وہاں بھی پہنچ گئے اور اتفاق سے اشفاق صاحب نے اسی وقت انہیں اندر بلا لیا۔ اشفاق احمد نے انہیں کہا کہ آپ اسکرپٹ دے دیں، میں دو تین دن میں اس کو دیکھ لوں گا۔ یہ دو دن بعد گئے تو ابھی تک انہوں نے سکرپٹ نہیں دیکھا تھا۔ اشفاق احمد نے ان کی موجودگی میں سکرپٹ پڑھنے کے بعد اسے پی ٹی وی لے جانے کا کہا۔ انہوں نے اپنے کارڈ کے پیچھے یہ الفاظ لکھ کر دیئے: ’’میں نے کسی کو اپنا پہلا ڈرامہ اتنا اچھا لکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘

ڈاکٹر یونس بٹ اشفاق احمد کا یہ کارڈ اور ڈرامے کا سکرپٹ لے کر پی ٹی وی کے دفتر چلے گئے اور وہاں استقبالیہ میں یہ دونوں چیزیں دے دیں۔ انہیں کہا گیا کہ آپ کو بعد میں بتایا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ایک دن ہاسٹل اپنے کمرے میں بیٹھا تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ پی ٹی وی کے کوارڈینیٹر ہیں اور یہ بتانے آئے تھے کہ میرا ڈرامہ منظور ہو گیا ہے۔ وہ مجھے ساتھ لے کر پی ٹی وی آئے جہاں میں نے دیکھا ڈرامے کی ریہرسل ہو رہی تھی۔ عبدالعزیزنے اس کو ڈائریکٹ کیا تھا۔ اس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ سب سے بڑا دنگل انسان کے دماغ کے اندر ہوتا ہے۔‘‘

کمزور دل ڈاکٹر

انہوں نے 1988ء میں کنگ ایڈورڈ کالج سے میڈیکل گریجویشن مکمل کی اور سائیکاٹری (ذہنی امراض) کے شعبے میں مہارت حاصل کی۔ اس کے متعلق بتاتے ہیں، ’’میں نے کچھ عرصہ سرجری میں بھی کام کیا۔ میری پروفیسر تھیں خالدہ عثمانی صاحبہ،انہوں نے میرے رویے کو دیکھ کر کہا کہ نہ تو تم کسی کو کٹ لگا سکتے ہو اور نہ سٹیچنگ کر سکتے ہو، اس لیے تمھارے لیے بہترہے کہ نفسیات اور ذہنی امراض کے شعبے میں چلے جاؤ۔ چناں چہ میں اس طرف آ گیا۔ یہاں بھی میرا زیادہ دل نہیں لگتا تھا، دراصل میں یقین رکھتا تھا کہ انسان کو اس کام کے لیے بنایا گیا ہوتا ہے جو وہ کرے تو اسے تھکاوٹ نہ ہو، مجھے لگتا تھا کہ میں تھک جاتا ہوں اس کام میں۔

مزاح نگاری اور ڈرامہ نویسی کی مصروفیات کی وجہ سے دونوں چیزوں کو ساتھ لے کر چلنا مشکل ہو رہا تھا، اس لیے میں نے ڈاکٹری چھوڑ دی۔ خیال تو تھا کہ پھر کبھی پلٹ کر اس شعبے میں دوبارہ آؤں گا، کیونکہ ڈاکٹری بھی پسند تھی مجھے، لیکن ابھی تک موقع نہیں ملا۔ ہو سکتا ہے کبھی دوبارہ یہ کام شروع کر دوں۔ میڈیکل کی تعلیم سے محنت کرنا سیکھا ہے۔‘‘

’بھکاری نہیں، تخلیق کار بنو‘

ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں، ’’میری کتابیں آنا شروع ہوئیں تو ان کو بہت مقبولیت ملی۔ کالم نگاری اور ڈرامہ نگاری کی وجہ سے بھی شہرت ملی۔ میں باہر جاتا تھا تو میرے مداح اردگرد جمع ہو جاتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دور میں مجھے جو مقبولیت ملی، وہ پھر نہیں ملی۔‘‘ ہم نے پوچھا، کم عمری میں شہرت اور پذیرائی ملنے پر آپ خراب نہیں ہوئے؟ ان کا کہنا تھا، ’’دراصل میں نے کبھی نہیں سوچا کہ میں نے کوئی بہت بڑی چیز کی ہے، جس پر اکتفا کر کے بیٹھ جاؤں۔

جو کام ہو جائے میں اس کو ایک طرف کر دیتا ہوں اور اپنی توجہ اگلے پراجیکٹ پر مرکوز کر لیتا ہوں۔ میرے لیے تو وہ چیز ہے جو ابھی میں نے کرنی ہے، جو ہو چکا وہ تو اب لوگوں کے لیے ہے۔ ہمارے استاد ہوتے تھے یاور حیات صاحب پی ٹی وی میں، وہ کہا کرتے تھے کہ کوئی اچھا کام کرو تو داد مانگنے باہر مت جاؤ، کیوں کہ جو باہر جاتا ہے وہ بھکاری ہوتا ہے، اس لیے بھکاری نہیں بلکہ تخلیق کار بنو۔ تخلیق خود اپنی داد ہوتی ہے۔‘‘

مقبول ترین پروگرام

ڈاکٹر یونس بٹ نے پی ٹی وی کے لیے ’’دنگل‘‘، ’’میں بیمار نہیں ہوں‘‘ ، ’’ لاٹھی‘‘ ، ’’چکر پہ چکر‘‘ اور دوسرے ڈرامے لکھے، لیکن جو مقبولیت ’’فیملی فرنٹ‘‘ کو ملی اس کی مثال نہیں ملتی۔ پی ٹی وی ورلڈ شروع ہوا تو ثمینہ احمد نے ان سے کہا کہ اس کے لیے ایک ڈرامہ لکھنا ہے۔ چناں چہ انہوں نے ’’فیملی فرنٹ‘‘ کے نام سے ایک خاندان پہ مبنی سٹ کام لکھا، جو کئی برس چلا۔ اسی طرح نجی ٹی وی چینل کے لیے لکھے گئے سیاسی مزاحیہ پروگرام ’’ہم سب امید سے ہیں‘‘ کو بھی شہرت ملی۔ کہتے ہیں، ’’اس میں ہم نے کئی تجربے پہلی مرتبہ کیے، جن کو پسند کیا گیا۔ 2002ء کے الیکشن کے لیے کچھ سیاسی کامیڈی پروگرام لکھنے تھے، لیکن یہ اتنے مقبول ہوئے کہ پھر 14 برس تک یہ چلتا رہا۔‘‘

دور حاضر میں ٹی وی ڈراموں اور شوز کے غیر معیاری ہونے کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ’’دراصل اب کوئی بھی چینل پروگرام بناتے ہوئے صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس پہ ریٹنگ ملے گی یا نہیں، اس کی وجہ سے ان کا معیار گر گیا ہے۔ تھیٹر اس وقت خراب ہوا تھا جب وہاں آنے والے لوگوں کی پسند کے مطابق اس کو بنایا گیا۔ یہی حال اب ٹی وی کا ہوا ہے۔ اب اس چیز کو مدنظر نہیں رکھا جاتا کہ لوگوں کو کیا دکھانا چاہیے، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کیا دیکھنا پسند کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ لکھنے والوں کے پاس ان سے اچھے اچھے آئیڈیاز ہوں لیکن موجودہ کلچر میں ان کو آزادی نہیں دی جاتی کہ اپنے آئیڈیاز پہ مبنی پروگرام بنائیں۔‘‘

مزاح برائے اصلاح

ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں، ’’اصل میں طنز و مزاح ایک طرز زندگی ہوتا ہے۔ آپ کا انداز بیان ایسا ہونا چاہیے کہ دوسرے کو تکلیف نہ ہو، آپ کسی کی خامیاں یا کمزور پہلوؤں کو اس طرح بیان کریں کہ اس پہ شرمندہ ہونے کے بجائے اس کو ہنسی آئے اور وہ سوچے کہ ہاں یار اس کو مجھے ٹھیک کرنا چاہیے۔ میں نے اپنی تحریروں میں یہ انداز اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ ان کے مطابق اچھا لطیفہ اچھے شعر سے طاقتور ہوتا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’جب میں نے طنز و مزاح لکھنا شروع کیا تو اس کو چھوٹی چیز سمجھا جاتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ کوئی صنف سخن چھوٹی بڑی نہیں ہوتی، بلکہ لکھنے والا بڑا یا چھوٹا ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر مرزا غالب شعر لکھے گا تو وہ بڑا شعر ہو گا لیکن عام شاعر اس معیار کا شعر نہیں لکھ سکتا۔ یہی بات طنز و مزاح پہ بھی صادق آتی ہے۔ آپ دیکھیں ملا نصر الدین کے جو واقعات ہیں، ان میں کتنی حکمت و دانش اور سچائی ہے، ان کا اثر بھی دیرپا ہوتا ہے اور یہ مختلف چیزوں کی بہت اچھے طریقے سے وضاحت کرتے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ایک اچھا لطیفہ، اچھے شعر سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔‘‘ مزاح نگاری میں ان کو مشتاق احمد یوسفی اور ابن انشا پسند ہیں۔

’متاثر ہونا فطری بات ہے‘

ہم نے پوچھا آپ پر الزام لگتا ہے کہ آپ نے اپنی تحریروں میں مشتاق احمد یوسفی کو نقل کیا ہے، اس میں کتنی سچائی ہے؟ ان کا کہنا تھا، ’’میں نے مشتاق احمد یوسفی کو پڑھا تو بہت زیادہ ان کے اثر میں آ گیا۔ میں ان کی طرح جملے بنانے کی کوشش کرتا تھا۔ لیکن سال چھ مہینے ان کا بہت زیادہ اثر رہا مجھ پر، پھر میں اپنے پرانے انداز پر واپس آ گیا۔ یہ فطری بات ہے کہ آپ اپنے عہد کے بڑے لکھاریوں سے متاثر ہوتے ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی آپ کے دور میں لکھ رہے ہوں اور آپ ان سے متاثر نہ ہوں۔ لیکن اس کو اسی انداز میں لینا چاہیے، نقل کہنا غلط ہے۔

میں نے فیملی فرنٹ لکھا تو بعد میں بہت سے لوگوں نے اس طرح کے پروگرام لکھے، اس طرح میرے سیاسی مزاحیہ شو کے انداز پر بھی کئی پروگرام بنائے گئے۔ لیکن میں نے ان لوگوں کو یہ نہیں کہا کہ آپ میری نقل کر رہے ہیں، کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ لوگ اچھے کام سے متاثر ہوتے ہیں، اس لیے یہ فطری بات ہے۔‘‘

مشکلات کی لذت

ڈاکٹریونس بٹ کہتے ہیں، ’’میں زندگی کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہوا ہوں چاہے مشکل وقت ہویا آسان، میں اس میں بیمار ہوں یا تندرست۔ مشکلات کی اپنی لذت ہوتی ہے۔ مجھے اپنے کام کے علاوہ کوئی چیز ایکسائٹ نہیں کرتی اس لیے میں اپنا وقت دوسری چیزوں میں ضائع نہیں کرتا۔ آئندہ ایک دو سال میں نے انٹرٹینمٹنٹ انڈسٹری کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر یونس بٹ کی شادی 1999ء میں ہوئی۔ تین بیٹوں اسبق یونس، اکبریونس ، اذان یونس اور ایک بیٹی کے والد ہیں۔ کہتے ہیں، ’’کھانا وہ پسند ہے جس میں ساتھ کھانے والے میری پسند کے ہوں۔ فیملی اور بچوں کے ساتھ وقت گزار کے لطف اندوز ہوتا ہوں۔‘‘

تصانیف: خندہ کاریاں، مزاح بخیر، مزاحیات، بٹ صورتیاں، شناخت پریڈ، خندہ پیش آنیاں، خندہ زن، نوک جوک، بٹ پارے، عکس برعکس، جوک در جوک، حوائیاں، شیطانیاں، ہم سب امید سے ہیں، یہ دنیا ہے دل والوں کی، مزاح پرسی، کلاہ بازیاں، توتو میںمیں، غل دستہ، افرا تفریح، لاف زنیاں، بٹ تمیزیاں، فیملی فرنٹ، گھرمستیاں، لاف پیک، خرمستیاں، مس فٹ، ڈبل ٹربل، مزاح گردی، بٹ کاریاں، سسر ان لاء ، مجموعہ ڈاکٹر محمد یونس بٹ