لال تایا ابا

نانا کا گھر خالہ کی شادی میں شرکت کرنے آئے ہوئے رشتے داروں سے بھرا ہوا تھا کافی سارے لوگ شادی میں شرکت کرنے دوسرے شہروں سے بھی آئے تھے جنہوں نے چھت پر بنے کمروں اور صحن میں ڈیرا ڈالا ہوا تھا۔ گھر میں سارا دن کیرم بورڈ، لوڈو کی بازیاں لگتیں، بچے چھپن چھپائی کھیلتے، لڑکیاں مہندی لگانے کی مشق کرتیں اور بزرگ گپیں لگاتے اور اپنے جوانی کے قصے سناتے۔ رات کے وقت نانا کا گھر کسی ریلوے اسٹیشن کا منظر پیش کرتا تھا جسکو جہاں جگہ ملتی سو جاتا تھا۔ رفع حاجت کے لئے بھی اکثر اگلے بندے کے باہر آنے کا انتظار کر نا پڑتا تھا۔ نانا کے گھر میں صبح سے رونق تھی کیونکہ آج خالہ کی شادی کی تقریب ہونی تھی نانا اور خاندان کے بڑے بزرگ بیٹھے شام کے پروگرام کے انتظامات کا جائزہ لے رہے تھے کے اچانک گلی سے بچوں کے شور کرنے اور لوگوں کے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں سب نے باہر نکل کر دیکھا تو ایک کھچڑی داڑھی والے بزرگ نما ہٹے کٹے شخص واحد ماموں کی پٹائی کررہے ہیں اور واحد ماموں پٹائی کھاکر بھی ہنس رہے ہیں۔ نانا نے فوراً جاکر واحد ماموں کو ان شخص سے چھڑایا اور ہنستے ہوئے بولے نور محمد کیا ہوا کیوں مار رہے ہو کیا اس نے تمہیں لال تایا ابا تو نہیں بول دیا جو تم اسے مار رہے ہو ؟ یہ میرا پہلا تعارف تھا نور محمد عرف لال تایا ابا سے ۔ کسی کو نہیں پتا تھا لال تایا ابا کہاں رہتے ہیں مگر ہر اہم موقعے اور شادی بیاہ کی تقریبات میں وہ اچانک سے آموجود ہوتے اور لوگ انکی پر بہار شخصیت سے بہت محضوض ہوا کرتے۔ کبھی کوئی کسی بہانے سے لال رنگ کی تعریف شروع کر دیتا اور لال تایا ابا غصے میں آ کر اسکی پٹائی کردیتے اور پٹنے والے سمیت سب لوگ ہنستے ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجاتے ۔ یہ بات کبھی نہیں معلوم ہوسکی کے لال تایا ابا کو لال رنگ سے اتنی چڑ کیوں تھی ناہی لوگوں کے اصرار کرنے پر کبھی انہوں نے اسکی وجہ بتائی ۔ لال تایا ابا بچوں سے بہت پیار کرتے اور شفقت سے پیش آتے۔ لال تایا ابا کے بس تین شوق تھے انکا پہلا شوق میٹھے چاولوں کا زردہ تھا جسے وہ بہت شوق سے کھاتے تھے لوگوں سے شرط لگا کر پیٹ بھر کر کھانا کھانے کے بعد بھی وہ میٹھے چاولوں کا پورا تھال کھالیتے تھے اور لوگ انکو کھاتے دیکھ کر حیران رہ جاتے کے وہ کس پیٹ میں یہ چاول کھارہے ہیں ۔ انکا دوسرا شوق کھانے کے فوراً بعد پان کھانا تھا یہی وجہ تھی کے انکی جیب میں پان ہر وقت موجود رہتا تھا۔ انکا تیسرا شوق جو عشق کی حد تک تھا وہ یہ کہ مسجد سے آذان کی آواز سنتے ہی وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوجاتے اور انکے قدم مسجد کی طرف چل پڑھتے تھے۔ کیسی بھی دلچسپ محفل جمی ہو یا وہ کسی بھی کام میں مصروف ہوں باقی تمام چیزیں اس وقت انکے لئے بے معنی ہوجاتی تھیں وہ سر جھکا کر وضو کرتے سر پر صافہ باندھ کر کائنات کے بادشاہ کے دربار میں حاضری دینے چل پڑھتے۔ میری اور میرے بھائیوں کی نئے سال کی کتابوں اور کاپیوں پر گتے کی جلد بناکر انکو دیدہ زیب اور مضبوط کردیتے اور انکو کبھی بلانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی وہ خود ہی سال کے شروع میں آموجود ہوتے اور مہارت سے جلدیں چڑھادیتے۔ تب مجھے پتا چلا کے لال تایا ابا کتابوں کی جلد سازی کا کام کرتے ہیں۔ جب لال تایا ابا ہماری کتابوں پر جلد سازی کرتے میں انکے پاس بیٹھ کر دیکھتا رہتا تھا کہ وہ کس مہارت سے یہ کام کرتے ہیں۔ اس دور میں پی ٹی وی پر ڈراموں کا بہت دور تھا لوگ ہر کام چھوڑ کر رات آٹھ سے نو بجے تک ڈرامے ضرور دیکھا کرتے تھے ۔ لال تایا ابا کے سامنے کتنا بھی دلچسپ ڈراما چل رہا ہوتا لیکن ایسا لگتا تھا وہ ڈراما نہیں دیکھ رہے ہیں یا کچھ سوچ رہے ہیں ۔ ایک دن میں نے باتوں میں پوچھ ہی لیا کہ کیا انکو ٹی وی دیکھنے کا شوق نہیں؟ تو کہنے لگے میرے پاس ٹی وی نہیں ناہی مجھے ٹی وی کا شوق ہے ۔ پھر کہنے لگے ہمارے نوجوانی کے زمانے میں لوگوں کو فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا تو ایک بار انکے بڑے بھائی نے انکو پاکستان بننے سے پہلے دہلی شہر کے سینما میں لیجاکر "عالم آرا” فلم دکھائی تھی مگر اسکے بعد انہوں نے کبھی سینما میں قدم نہیں رکھا۔ ایک دن میں نے پوچھا آپکی بیوی بچے کہاں ہیں تو کہنے لگے میں اکیلا کراچی میں رہتا ہوں بیوی اور بچے حیدرآباد میں رہتے ہیں ۔ میرے دو بیٹے ہیں جو دودھ کا کاروبار کرتے ہیں اور اچھا کماتے ہیں ۔ تو میں نے پوچھا پھر آپ اپنی بیوی اور بیٹوں کے ساتھ کیوں نہیں رہتے وہ آپکی خدمت کرینگے اور آپ آرام سے انکے ساتھ رہینگے ۔ کچھ دیر چپ رہے پھر کہنے لگے میرے بیٹے دودھ میں پانی ملاتے ہیں جسکی وجہ سے میں انکی کمائی کو حلال نہیں سمجھتا حالانکہ لوگ میرے بیٹوں کی دکان کے دودھ کی بہت تعریف کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انکا دودھ خالص ہے مگر مجھے تو اصل بات کا پتا ہے اسہی لئے میں اپنے بیٹوں سے کوئی بھی پیسا نہیں لیتا اور جب انسے ملنے جاتا بھی ہوں تو اپنی محنت کی کمائی سے اپنے کھانے پینے پر خرچ کرتا ہوں جس پر وہ مجھ سے بہت ناراض ہوتے ہیں اور میری بیوی بھی مجھ سے اس بات پر لڑتی ہے ۔ یہ بات سنکر میں بہت حیران ہوا اور انکے ایمان کی مضبوطی سے بہت متاثر ہوا۔ لال تایا ابا کے سینے میں اکثر خر خر کی آوازیں آنے لگیں وہ وقت کے ساتھ بہت کمزور ہوگئے تھے پھر پتا چلا انکو ٹی بی ہو گئی ہے مگر سخت سردیوں میں بھی وہ ٹھنڈے پانی سے وضو کرکے نماز پڑھنے مسجد جانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ سخت بیمار ہوگئے اور اسپتال میں داخل کردیے گئے انکے بیٹوں اور بیوی کو اطلاع ملی تو وہ انکو اپنے ساتھ زبردستی حیدرآباد لے گئے جہاں چند دنوں بعد ہی وہ کائنات کے بادشاہ کے مستقل مہمان بن کر اسکی جنتوں کی طرف چلے گئے ۔ لال تایا ابا کا جب بھی خیال آتا ہے ایک احساس شدت سے ہوتا ہے کے وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے ولی تھے اور اپنے رب کے دین کو نہایت مظبوطی سے تھامے ہوئے تھے۔ انہوں نے دنیا کی عارضی زندگی انتہائی سادگی کے ساتھ گزاری ایک مسافر کی طرح اس دنیا سے چلے گئے۔ آج کے نفسا نفسی کے دور میں ایسی ایمان کی مضبوطی والے لوگ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملینگے ۔

حاضری

بس ڈرائیور نے مجھے اشارہ کیا کہ اسکے ساتھ والی سنگل سیٹ پر بیٹھ جائوں۔ میری فیملی بس کی پچھلی سیٹوں پر پہلے ہی ایڈجسٹ ہوچکی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ کہاں بیٹھوں۔ میں نے بھی پیشکش کو غنیمت جانا اور فوراً اسکے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ جرمنی کی مرسڈیز کمپنی کی بنی ہوئی بس بہت آرام دہ تھی مگر بس آرام دہ نا بھی ہوتی تو بھی کوئی بات نہیں جب سفر کائنات کی مقدس ترین ہستی سرور کونین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے در اقدس کی حاضری کا ہو تو کیسا آرام ۔

ڈرائیور کا تعلق پنجاب کے کسی علاقے سے تھا ڈرائیور کے پیچھے ایک دیہاتی حلئے کی بوڑھی خاتون بیٹھی تھیں اور وہ بار بار پنجابی میں اس سے پوچھ رہی تھیں کے مدینہ الرسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے آنے میں کتنا وقت اور لگے گا جواب سنکر وہ پھر سے درود شریف پڑھنے میں مصرف ہوجاتیں ۔ پھر کچھ دیر کے بعد ڈرائیور کو یاد دلاتیں کے جیسے ہی بس مدینہ منورہ میں داخل ہو وہ انھیں بتادے۔ ڈرائیور انکو پنجابی میں تسلی دیتا اور پھر مجھ سے باتوں میں مصروف ہوجاتا۔ وہ ڈرائیونگ کے دوران ہونے والے دلچسپ قصے سنائے جارہا تھا اور میں سر ہلا ہلا کر اسکی باتیں سن رہا تھا ساتھ ہی دل ہی دل میں درودشریف پڑھ رہا تھا۔
جب بس مدینے کی چیک پوسٹ پر پہنچی تو ڈرائیور نے مجھے کہا کہ ہم مدینے میں داخل ہو رہے ہیں ۔ میں نے اس سے کہا سارے مسافر اسہی انتظار میں ہیں لہذا وہ بس کے مائیک سسٹم پر سب کو یہ بات بتادے مگر اسکو مائیک پر بولنے میں جھجھک ہورہی تھی۔ وہ مجھ سے کہنے لگا آپ بول دو اور پھر اسنے مائیک آن کرکے مجھے دیدیا۔

میں بولتا چلا گیا ، اسلام علیکم الحمداللہ ہم لوگ مدینے کی حدود میں داخل ہورہے ہیں آپ سب مدینے میں داخل ہونے کی دعا پڑھ لیں اور دربار رسالت میں درود شریف کا نذرانہ پیش کردیں ۔

اعلان کے بعد ایسا لگا کہ پوری بس کی فضا تقدس سے لبریز ہوچکی ہو ہر مسافر کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور لبوں پر درود و سلام کے نزرانے تھے۔ میں نے پلٹ کر بوڑھی خاتون کی طرف دیکھا تو مجھے لگا وہ بوڑھی خاتون تو جیسے دربار رسالت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم میں حاضر ہوچکی تھیں انکی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور وہ ہاتھ اٹھا کر کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے درود و سلام کے نزرانے پیش کررہی تھیں۔ مجھے اپنا جذبہ اس وقت بہت حقیر لگا میرے دل سے دعا نکلی کے کاش مجھے ان دیہاتی بوڑھی خاتون کے عشق رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا ایک ذرہ بھی نصیب ہو جائے تو میرا نام بھی عاشقان رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی فہرست میں شامل ہو جائے ۔

’’شیطانیاں‘‘ از ڈاکٹر یونس بٹ سے اقتباس

ایک دن ایک اداکارہ نے مجھ سے پوچھا۔ ’’اس دنیا کی رنگارنگی اور خوبصورتی کس کے وجود سے ہے؟‘‘

یہ سوال کرکے وہ جواب بن کر سامنے بیٹھ گئی، لیکن جب میں نے کہا ’’شیطان کے دم قدم سےِِ‘‘ تو اس نے سر سے لے کر پاؤں تک مجھے یوں دیکھا جیسے میں نے کہہ دیا ہو ’’میری وجہ سے۔‘‘

شیطان سے میرا پہلی بار باقاعدہ تعارف اس دن ہوا جب میری ملاقات اپنے گاؤں کے مولوی صاحب سے ہوئی۔ میں نے ان کی کسی بات پر اختلاف کیا تو انہوں نے میرے والد صاحب سے کہا۔ ’’آپ کا لڑکا بڑا شیطان ہوگیا ہے۔‘‘ انہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا کیونکہ اس دنیا میں پہلی بار اختلاف رائے شیطان ہی نے کیا ۔۔۔۔۔۔۔ یوں وہ اس دنیا میں جمہوریت کا بانی ہے۔۔۔۔۔۔۔ شیطان مرد کے دماغ میں رہتا ہے اور عورت کے دل میں۔۔۔۔۔۔۔ ہر آدمی شیطان سے پناہ مانگتا ہے اور کئی لوگوں کو وہ پناہ دے بھی دیتا ہے۔ شیطان اور فرشتے میں یہ فرق ہے کہ شیطان بننے کے لئے پہلے فرشتہ ہونا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔ جہاں تک شیطان کو آدم کو سجدہ نہ کرنے کا تعلق ہے، وہ سب اس کا پبلسٹی اسٹنٹ تھا جس کی وجہ سے اسے شہرت ملی، کہ جہاں جہاں رحمان کا ذکر آتا ہے وہاں اس کا ذکر ضرور ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ ورنہ اس آدم کو تو وہ سو سو سجدے کرنے کے لئے آج بھی تیار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں شیطان سے کبھی نہیں گھبرایا لیکن برا آدمی دیکھ کر ہی ڈر جاتا ہوں کیونکہ شیطان برا فرشتہ ہے، برا انسان نہیں۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ – تحریر:سعادت حسن منٹو

بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہئے یعنی جو مسلمان پاگل، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں ہندوستان کے حوالے کردیا جائے۔
معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول، بہرحال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق اِدھر اُدھر اُونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں اور بالآخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لئے مقرر ہوگیا۔ اچھی طرح چھان بین کی گئی۔ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے۔ وہیں رہنے دیئے گئے تھے۔ جو باقی تھے اُن کو سرحد پر روانہ کردیا گیا۔ یہاں پاکستان میں چُونکہ قریب قریب تمام ہندو سکھ جاچکے تھے۔ اس لئے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوا۔ جتنے ہندو سِکھ پاگل تھے سب کے سب پولیس کی حفاظت میں بورڈ پہنچا دیئے گئے۔
اُدھر کا معلوم نہیں۔ لیکن اِدھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز باقاعدگی کے ساتھ ’’زمیندار‘‘ پڑھتا تھا اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا۔ ’’مولبی ساب، یہ پاکستان کیا ہوتا ہے‘‘۔ تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا۔ ’’ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں اُسترے بنتے ہیں‘‘۔ یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہوگیا۔
اسی طرح ایک سِکھ پاگل نے ایک دوسرے سِکھ پاگل سے پُوچھا۔ ’’سردار جی! ہمیں ہندوستان کیوں بھیجا جارہا ہے، ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی‘‘۔
دوسرا مسکرایا۔ ’’مجھے تو ہندو ستوڑوں کی بولی آتی ہے، ہندوستانی بڑے شیطانی آکڑ آکڑ پھرتے ہیں‘‘۔
ایک دن نہاتے نہاتے ایک مسلمان پاگل نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘کا نعرہ اس زور سے بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گِرا اور بے ہوش ہوگیا۔ بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے۔ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو دے دلا کر پاگل خانے بھجوا دیا تھا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں۔ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا ہے اور یہ پاکستان کیا ہے۔ لیکن صحیح واقعات سے وہ بھی بے خبر تھے۔ اخباروں سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا اور پہرہ دار سپاہی اَن پڑھ اور جاہل تھے۔ ان کی گفتگو سے بھی وہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں کرسکتے تھے۔ ان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدمی محمد علی جناح ہے جس کو قاعدِ اعظم کہتے ہیں۔ اس نے مسلمانوں کے لئے ایک علیٰحدہ ملک بنایا ہے جس کا نام پاکستان ہے۔ یہ کہاں ہے؟ اس کا محل وقوع کیا ہے۔ اس کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاگل خانے میں وہ سب پاگل جن کا دماغ پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا اس مخمصے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں۔ اگر ہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے۔ اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ کچھ عرصہ پہلے یہیں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے۔
ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان، اور ہندوستان اور پاکستان کے چکر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہوگیا۔ جھاڑو دیتے دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنے پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اُترنے کو کہا تو وہ اور اُوپر چڑھ گیا۔ ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا : ’’میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں۔ میں اس درخت پر ہی رہوں گا‘‘۔
بڑی مشکلوں کے بعد جب اس کا دورہ سرد پڑا تو وہ نیچے اُترا اور اپنے ہندو سِکھ دوستوں سے گلے مِل مِل کر رونے لگا۔ اس خیال سے اس کا دل بھر آیا تھا کہ وہ اسے چھوڑ کر ہندوستان چلے جائیں گے۔ایک ایم۔ ایس۔سی پاس ریڈیو انجینئر میں جو مسلمان تھا اور دوسرے پاگلوں سے بالکل الگ تھلگ باغ کی ایک خاص روش پر سارا دن خاموش ٹہلتا رہتا تھا یہ تبدیلی نمودار ہوئی کہ اس نے تمام کپڑے اُتار کر وفعدار کے حوالے کردیئے اور ننگ دھڑنگ سارے باغ میں چلنا پھرنا شروع کردیا۔
چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سرگرم کارکُن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ سولہ مرتبہ نہایا کرتا تھا یک لخت یہ عادت ترک کردی۔ اس کا نام محمد علی تھا۔ چُنانچہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کردیا کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک سِکھ پاگل ماسٹر تارا سنگھ بن گیا۔ قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہوجائے مگر دونوں کو خطرناک پاگل قرار دے کر علیٰحدہ علیٰحدہ بند کردیا گیا۔
لاہور کا ایک نوجوان ہندو وکیل تھا جو محبت میں ناکام ہوکر پاگل ہوگیا تھا۔ جب اس نے سُنا کہ امرت سر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دُکھ ہوا۔ اسی شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبت ہوئی تھی۔ گو اس نے اس وکیل کو ٹھکرادیا تھا مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اس کو نہیں بُھولا تھا۔ چُنانچہ وہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دیتا تھا جنہوں نے مل کر ہندوستان کے دو ٹکڑے کردیئے۔ اس کی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اور وہ پاکستانی۔
جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تو وکیل کو کئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل بُرا نہ کرے۔ اس کو ہندوستان بھیج دیا جائے گا۔اُس ہندوستان میں جہاں اُس کی محبوبہ رہتی تھی۔ مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے کہ اس کا خیال تھا کہ امرت سر میں اس کی پریکٹس نہیں چلے گی۔
یورپین وارڈ میں دو اینگلو انڈین پاگل تھے۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کرکے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے اب ان کی حیثیت کس قسم کی ہوگی۔ یورپین وارڈ رہے گا یا اُڑا دیا جائے گا۔ بریک فاسٹ ملا کرے گا یا نہیں۔ کیا انہیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاٹی تو زہر مار نہیں کرنا پڑے گی۔
ایک سِکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہوچکے تھے۔ ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب و غریب الفاظ سننے میں آتے تھے: ’’اوپڑ دی گڑگڑدی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین‘‘۔ دن کو سوتا تھا نہ رات کو۔ پہرہ داروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لحظے کے لئے بھی نہیں سویا۔ لیٹتا بھی نہیں تھا۔ البتہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا۔
ہر وقت کھڑا رہنے سے اس کے پاؤں سُوج گئے تھے۔ پنڈلیاں بھی پُھول گئی تھیں مگر اس جسمانی تکلیف کے باوجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ ہندوستان، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی تو وہ غور سے سنتا تھا۔ کوئی اس سے پوچھتا کہ اس کا کیا خیال ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا۔ ’’اوپڑ دی گڑگڑدی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان گورنمنٹ‘‘۔
لیکن بعد میں ’’آف دی پاکستان گورنمنٹ کی‘‘ جگہ ’’اوف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ‘‘ نے لے لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے۔ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ جو بتانے کی کوشش کرتے تھے وہ خود اس اُلجھاؤ میں گرفتار ہوجاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سُنا ہے کہ پاکستان میں ہے۔ کیا پتا ہے کہ لاہور جو اب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے۔ یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غائب ہی ہوجائیں۔
اِس سِکھ پاگل کے کیس چھدرے ہوکر بہت مختصر رہ گئے تھے۔ چونکہ بہت کم نہاتا تھا اس لئے ڈاڑھی اور سَر کے بال آپس میں جم گئے تھے۔ جس کے باعث اس کی شکل بڑی بھیانک ہوگئی تھی۔ مگر آدمی بے ضررتھا۔ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا۔ پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے وہ اس کے متعلق اتنا جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں۔ اچھا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ اچانک دماغ اُلٹ گیا۔ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کراگئے۔
مہینے میں ایک بار ملاقات کے لئے یہ لوگ آتے تھے اور اس کی خیر خیریت دریافت کرکے چلے جاتے تھے۔ ایک مدّت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پر جب پاکستان، ہندوستان کی گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہوگیا۔
اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر سب اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے، اس کو یہ قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے، مہینہ کون سا ہے، یا کتنے سال بیت چکے ہیں۔ لیکن ہر مہینے جب اس کے عزیز و اقارب اس سے ملنے کے لئے آتے تھے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا۔ چنانچہ وہ وفعدار سے کہتا کہ اس کی ملاقات آرہی ہے۔ اس دن وہ اچھی طرح نہاتا، بدن پر خوب صابن گھستا اور سر میں تیل لگا کر کنگھا کرتا، اپنے کپڑے جو وہ کبھی اِستعمال نہیں کرتا تھا نکلوا کر پہنتا اور یوں سج بن کر ملنے والوں کے پاس جاتا۔ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار ’’اوپڑدی گڑگڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین‘‘ کہہ دیتا۔
اس کی ایک لڑکی تھی جو ہر مہینے ایک انگلی بڑھتی بڑھتی پندرہ برسوں میں جوان ہوگئی تھی۔ بشن سنگھ اس کو پہچانتا ہی نہیں تھا۔ وہ بچی تھی جب بھی اپنے باپ کو دیکھ کر روتی تھی، جوان ہوئی تب بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔
پاکستان اور ہندوستان کا قصّہ شروع ہوا تو اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔ جب اطمینان بخش جواب نہ ملا تو اس کی کرید دن بدن بڑھتی گئی۔ اب ملاقات بھی نہیں آتی تھی۔ پہلے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا کہ ملنے والے آرہے ہیں، پَر اب جیسے اس کے دل کی آواز بھی بند ہوگئی تھی جو اسے ان کی آمد کی خبر دے دیا کرتی تھی۔
اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگ آئیں جو اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے تھے اور اس کے لئے پھل، مٹھائیاں اور کپڑے لاتے تھے۔ وہ اگر ان سے پوچھتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے تو وہ یقیناًاسے بتا دیتے کہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سے آتے ہیں جہاں اس کی زمینیں ہیں۔
پاگل خانے میں ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کو خدا کہتا تھا۔ اس سے جب ایک روز بشن سنگھ نے پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں تو اس نے حسبِ عادت قہقہہ لگایا اور کہا : ’’وہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں۔ اس لئے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا‘‘۔
بشن سنگھ نے اس خدا سے کئی مرتبہ بڑی منّت سماجت سے کہا کہ وہ حکم دے دے تاکہ جھنجھٹ ختم ہو، مگر وہ بہت مصروف تھا اس لئے کہ اسے اور بے شمار حکم دینے تھے۔ ایک دن تنگ آکر وہ اس پر برس پڑا۔ ’’اوپڑدی گڑگڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف واہے گوروجی دا خالصہ اینڈ واہے گوروجی کی فتح۔ جو بولے سونہال، ست سری اکال‘‘۔
اس کا شاید یہ مطلب تھا کہ تم مسلمانوں کے خدا ہو، سکھوں کے خدا ہوتے تو ضرور میری سُنتے۔
تبادلے سے کچھ دن پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک مسلمان جو اس کا دوست تھا ملاقات کے لئے آیا۔ پہلے وہ کبھی نہیں آتا تھا۔ جب بشن سنگھ نے اسے دیکھا تو ایک طرف ہٹ گیا اور واپس جانے لگا مگر سپاہیوں نے اسے روکا۔ ’’یہ تم سے ملنے آیا ہے، تمہارا دوست فضل دین ہے‘‘۔
بشن سنگھ نے فضل دین کو ایک نظر دیکھا اور کچھ بڑبڑانے لگا۔ فضل دین نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا : ’’میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ تم سے ملوں لیکن فرصت ہی نہ ملی۔تمہارے سب آدمی خیریت سے ہندوستان چلے گئے تھے، مجھ سے جتنی مدد ہوسکی، میں نے کی۔ تمہاری بیٹی روپ کور….‘‘
وہ کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔ بشن سنگھ کچھ یاد کرنے لگا : ’’بیٹی روپ کور‘‘۔ فضل دین نے رُک رُک کر کہا: ’’ہاں…..وہ…..وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ ان کے ساتھ ہی چلی گئی تھی‘‘۔
بشن سنگھ خاموش رہا۔فضل دین نے کہنا شروع کیا۔ ’’ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری خیر خیریت پوچھتا رہوں۔ اب میں نے سُنا ہے کہ تم ہندوستان جارہے ہو۔ بھائی بلبیر سنگھ اور بھائی ودھاوا سنگھ سے میرا سلام کہنا۔ اور بہن امرت کور سے بھی…..بھائی بلبیر سے کہنا۔ فضل دین راضی خوشی ہے۔ دو بھوری بھینسیں جو وہ چھوڑ گئے تھے۔ ان میں سے ایک نے کٹّا دیا ہے۔ دوسری کے کٹّی ہوئی تھی پر وہ چھ دن کی ہو کے مر گئی…..اور ……میرے لائق جو خدمت ہو، کہنا، میں ہر وقت تیار ہوں…..اور یہ تمہارے لئے تھوڑے سے مرونڈے لایا ہوں‘‘۔
بشن سنگھ نے مرونڈوں کی پوٹلی لے کر پاس کھڑے سپاہی کے حوالے کردی اور فضل دین سے پوچھا۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟‘‘
فضل دین نے قدرے حیرت سے کہا۔ ’’کہاں ہے، وہیں ہے جہاں تھا‘‘۔
بشن سنگھ نے پھر پوچھا۔ ’’پاکستان میں یا ہندوستان میں؟‘‘
’’ہندوستان میں۔ نہیں نہیں پاکستان میں‘‘۔ فضل دین بوکھلا سا گیا۔
بشن سنگھ بڑابڑاتا ہوا چلا گیا۔ ’’اوپڑدی گڑگڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی مُنگ دی وال آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی دُرفِٹے مُنہ!‘‘
تبادلے کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آنے والے پاگلوں کی فہرستیں پہنچ گئی تھیں اور تبادلے کا دن بھی مقرر ہوچکا تھا۔
سخت سردیاں تھیں جب لاہور کے پاگل خانے سے ہندو سِکھ پاگلوں سے بھری ہوئی لاریاں پولیس کے محافظ دستے کے ساتھ روانہ ہوئیں۔ متعلقہ افسر بھی ہمراہ تھے۔ واہگہ کے بورڈر پر طرفین کے سپرنٹنڈنٹ ایک دوسرے سے ملے اور ابتدائی کارروائی ختم ہونے کے بعد تبادلہ شروع ہوگیا جو رات بھر جاری رہا۔
پاگلوں کو لاریوں سے نکالنا اور ان کو دوسرے افسروں کے حوالے کرنا بڑا کٹھن کام تھا۔ بعض تو باہر نکلتے ہی نہیں تھے۔ جو نکلنے پر رضامند ہوتے تھے۔ ان کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا تھا۔ کیونکہ اِدھر اُدھر بھاگ اُٹھتے تھے، جو ننگے تھے ان کو کپڑے پہنائے جاتے تو وہ پھاڑ کر اپنے تن سے جدا کردیتے۔ کوئی گالیاں بک رہا ہے، کوئی گا رہا ہے، آپس میں لڑجھگڑ رہے ہیں، رو رہے ہیں، بلک رہے ہیں، کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔پاگل عورتوں کا شور و غوغا الگ تھا اور سردی اتنی کڑاکے کی تھی کہ دانت سے دانت بج رہے تھے۔
پاگلوں کی اکثریت اس تبادلے کے حق میں نہیں تھی۔ اس لئے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں اپنی جگہ سے اُکھاڑ کر کہاں پھینکا جارہا ہے۔ وہ چند جو کچھ سوچ سمجھ سکتے تھے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ دو تین مرتبہ فساد ہوتے ہوتے بچا، کیونکہ بعض مسلمانوں اور سِکھوں کو یہ نعرے سُن کر طیش آگیا تھا۔
جب بشن سنگھ کی باری آئی اور واہگہ کے اس پار متعلقہ افسر اِس کا نام رجسٹر میں درج کرنے لگا تو اس نے پوچھا۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ پاکستان میں یا ہندوستان میں؟‘‘
متعلقہ افسر ہنسا۔ ’’پاکستان میں‘‘۔
یہ سُن کر بشن سنگھ اُچھل کر ایک طرف ہٹا اور دوڑ کر اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔ پاکستانی سپاہیوں نے اُسے پکڑ لیا اور دوسری طرف لے جانے لگے، مگر اس نے چلنے سے انکار کردیا۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ یہاں ہے‘‘۔ اور زور زور سے چلّانے لگا۔ ’’اوپڑدی گڑگڑدی اینکس دی بے دھیانہ دی مُنگ دی وال آف ٹوبہ ٹیک سنگھ اینڈ پاکستان‘‘۔
اسے بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ہے۔ اگر نہیں گیا تو اسے فوراً وہاں بھیج دیا جائے گا مگر وہ نہ مانا۔ جب اس کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکے گی۔
آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لئے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی،اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا۔
سُورج نکلنے سے پہلے ساکت وصامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ اِدھر اُدھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا تھا، اوندھے مُنہ لیٹا ہے۔ ادھر خار دار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا۔ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا

اللہ کا پسندیدہ فعل– اشفاق احمد – اقتباس “من چلے کا سودا”

محمد حسین: لیکن سرکار، یہ رنگا رنگ مورتیاں۔۔۔ یہ شکلیں شباہتیں۔۔۔ یہ دھینگا مشتی۔۔۔ مار دھاڑ۔۔۔ کھینچا تانی، یہ کیا؟
ارشاد: میاں محمد حسین صاحب راج دلارے! نہ کوئی ساجد ہے نہ مسجود۔۔۔ نہ عابد نہ معبود۔۔۔ نہ آدم نہ ابلیس۔۔۔ صرف ایک ذات قدیم صفات رنگارنگ میں جلوہ گر ہے۔ نہ اس کی ابتداء نہ انتہاء۔۔۔ نہ کو کسی نے دیکھا نہ سمجھا۔۔۔ نہ فہم قیاس میں آئے نہ وہم گماں میں سمائے۔۔۔ جیسا تھا ویسا ہی ہے اور جیسا ہے ویسا ہی رہے گا۔۔۔ نہ گھٹے نہ بڑھے، نہ اترے نہ چڑھے۔۔۔ وہ ایک ہے، لیکن ایک بھی نہیں کہ اس کو موجودات سے اور موجودات کو اس سے الگ سمجھنا نادانی اور مورکھتا ہے۔ دنیا میں طرح طرح کے کاروبار اور رنگا رنگا پروفیشن موجود ہیں۔ ایسے ہی خداشناسی اور خدا جوئی بھی ایک دھندہ ہے۔
محمد حسین: جب اس کا کوئی سر پیر ہی نہیں حضور تو پھر ڈھونڈنے والا کیا ڈھونڈے اور کرنے والا کیا کرے؟
 ارشاد: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا، یا مولا! تیری بارگاہ میں میرا کون سا فعل پسندیدہ ہے تا کہ میں اسے ذیادہ کروں اور بار بار کروں۔ حکم ہوا یہ فعل ہم کو پسند آیا کہ جب بچپن میں تیری ماں تجھے مارا کرتی تھی تو مار کھا کر بھی اسی کی طرف دوڑا کرتا تھا اور اسی کی جھولی میں گھستا تھا۔ تو بھائی محمد حسین صاحب! ڈھونڈنے والے کو بھی یہی لازم ہے کہ گر کیسی بھی سختی ہو، کیسی بھی ذلت و خواری پیش آئے لیکن ہر حال میں خدا کی طرف رجوع کرے اور اسی کے فضل کو پکارتا رہے۔
ڈرامہ،”من چلے کا سودا” صفحہ 286 سے اقتباس

مومن کی شان – اشفاق احمد – اقتباس "من چلے کا سودا”

پھر اہمیت کس کو ہوئی۔۔۔ جسم کو، روح کو یا دماغ کو؟
ارشاد : کمال ہے بیگم صاحبہ! آپ سٹول کی تینوں ٹانگوں کے بارے میں پوچھ رہی ہیں، ان میں سے اہم ترین کون سی ہے کہ سٹول گرنے نہ پائے اور اپنا توازن قائم رکھے۔
عائشہ : تینوں ہی اہم ہیں مسز سلمان اور ایک جیسی اہم ہیں۔
عذرا : مجھے تو سمجھ نہیں آتی بالکل۔ میں تو قدم قدم پر غلطیاں کرتی ہوں اور قدم قدم پر گرتی ہوں۔
ارشاد : انسان غلطی بھی کرتا ہے، گرتا بھی ہے اور ناکام بھی ہوتا ہے۔ انسان جو ہوا۔ اس کائنات میں صرف ایک ذات ایسی ہے جو نہ غلطی کرتی ہے اور نہ ہی ناکام ہوتی ہے۔
عذرا : خدا کی ذات!
ارشاد : اب جو لوگ اپنی غلطیوں اور کمزوریوں پر کڑھتے ہیں، ان میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں، وہ نعوذباللہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔۔۔ اور جب ان سے خدا بنا نہیں جاتا کہ یہ ناممکن بات ہے تو پھر وہ شیطان بن جاتے ہیں اور بڑے نقصان کرتے ہیں۔
عائشہ : سارے معاشرے کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
ارشاد : سارے معاشرے کو؛ اپنے آپ کو؛ پورے ماحول کو۔۔۔ (موڈ بدل کر) پاکپتن میں میں نے بابا صاحب کے مزار پر ایک فقیر کو دیکھا کہ ہاتھ میں روٹی رکھے کھا رہا تھا اور اس کے کچلوندے کبوتروں کو ڈال رہا تھا۔ میں نے کہا، "بابا! اس درگاہ میں تم کیا کام کرتے ہو؟” کہنے لگا، "صاحب! ہم گرتے ہیں اور پھر اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پھر گرتے ہیں اور پھر اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمیں ہمارے بابوں نے مومن کی یہی شان بتلائی ہے کہ گرے تو پھر اٹھ کھڑا ہو جائے۔ پھسلے تو پھر سنبھل جائے۔ مومن وہ نہیں ہوتا کہ ٹھوکر ہی نہ کھائے، مومن تو وہ ہوتا ہے ٹھوکر کھائے تو ترنت اپنی جگہ پر قائم ہو جائے”۔
اشفاق احمد کے ناول، من چلے کا سودا سے اقتباس

کلہاڑی اور رسی – اشفاق احمد – اقتباس "من چلے کا سودا”

سراج : میں تو کہتا ہوں کہ اس دنیا میں کوئی اصلی آدمی، کوئی اصلی رہبر، اصلی ہادی ہے ہی نہیں۔
ارشاد : آپ اپنی طلب درست کرلیجئے، اصل آدمی مل جائے گا۔ خود بخود آجائے گا آپ کے پاس۔۔۔ کرایہ خرچ کرکے، ٹکٹ خرید کے!
سراج : چلئے پھر ٹھیک ہے ارشاد صاحب میں دنیا سے منہ موڑتا ہوں آج سے، اسی لمحے سے ۔۔۔ دکان چھوڑتا ہوں، گھر میں نے چھوڑا ہے۔ آپ مجھے اپنا غلام بنا لیں، اپنا خلیفہ بنا لیں، یہاں ڈیرا چلائیں۔
ارشاد : مبتدی کے لیے ضروری ہے کہ وہ رزق حلال کمائے اور اپنی اور اپنے گھر والوں کی کفالت کرے۔ آگے چل کر وہ کام تو اسی طرح سے کرتا رہے گا لیکن آہستہ آہستہ اس سے علائق دنیا جدا ہوتے جائیں گے ۔۔۔ فکر اہل و عیال، اندیشہ مال و زر، حب جاہ و تمکنت سے چھٹکارا ہونے لگے گا۔ جب تعلق اور جگہ ہوجائے گا تو یہ کام فروعی رہ جائیں گے اور فروعی کاموں کا عمر بھر کوئی بوجھ نہیں ہوتا۔
سراج : اصل میں بات یہ ہے ارشاد صاحب کہ میں کرامت کی تلاش میں آپ کے پاس آیا تھا اور عامر صاحب نے مجھے یہی امپریشن دیا تھا۔ لیکن افسوس مجھے آپ سے وہ حاصل نہیں ہوا جو میری آرزو تھی۔ آپ تو مجھے پھر میری دلدل میں واپس بھیج رہے ہیں، گہری اور گوڈے گوڈے کھوبو دلدل میں!
ارشاد : (حیرانی، خوشدلی اور خوش اسلوبی سے مسکراتے ہوئے اسے دیکھتا ہے)
سراج : یہ عامر صاحب بھی بڑے بھولے آدمی ہیں۔ کہتے تھے کہ سارے جالے اتر جائیں گے، بات شیشہ ہوجائے گی ارشاد صاحب سے مل کر۔ یہاں تو سواہ بھی نہیں!
ارشاد : میل جول رکھیں سراج صاحب، آتے جاتے رہیں۔ کیا پتہ آپ سے ہمیں کچھ فائدہ ہی پہنچ جائے ۔۔۔ کوئی راہ ہی سیدھی ہوجائے ہماری۔
سراج : خدا نہ کرے میں اب یہاں قدم رکھوں یا پھر کبھی آؤں اس طرف۔ وہ تو قصہ ہی ختم ہوگیا۔ میری تو خواہش تھی کہ آپ مجھے یہاں رکھتے، اپنا خلیفہ بناتے۔ ہم یہ ڈیرا چلاتے، لوگوں کی مدد کرتے۔ لیکن آپ تو مجھے رزق حلال کمانے کو کہہ رہے ہیں۔ حد ہوگئی! میں دنیا چھوڑنی چاہ رہا ہوں، آپ وہی پکڑا رہے ہیں۔
ارشاد : میں آپ کو کلہاڑی اور رسی سے زیادہ اور کیا دے سکتا ہوں سراج صاحب!
سراج : (غصے سے) او جی میں نے کیا کرنی ہے کلہاڑی اور رسی! سر میں مارنی ہے؟
(غصے کے ساتھ اٹھتا ہے اور "ہونہہ” کہہ کر باہر نکل جاتا ہے)۔
من چلے کا سودا سے اقتباس