لال تایا ابا

نانا کا گھر خالہ کی شادی میں شرکت کرنے آئے ہوئے رشتے داروں سے بھرا ہوا تھا کافی سارے لوگ شادی میں شرکت کرنے دوسرے شہروں سے بھی آئے تھے جنہوں نے چھت پر بنے کمروں اور صحن میں ڈیرا ڈالا ہوا تھا۔ گھر میں سارا دن کیرم بورڈ، لوڈو کی بازیاں لگتیں، بچے چھپن چھپائی کھیلتے، لڑکیاں مہندی لگانے کی مشق کرتیں اور بزرگ گپیں لگاتے اور اپنے جوانی کے قصے سناتے۔ رات کے وقت نانا کا گھر کسی ریلوے اسٹیشن کا منظر پیش کرتا تھا جسکو جہاں جگہ ملتی سو جاتا تھا۔ رفع حاجت کے لئے بھی اکثر اگلے بندے کے باہر آنے کا انتظار کر نا پڑتا تھا۔ نانا کے گھر میں صبح سے رونق تھی کیونکہ آج خالہ کی شادی کی تقریب ہونی تھی نانا اور خاندان کے بڑے بزرگ بیٹھے شام کے پروگرام کے انتظامات کا جائزہ لے رہے تھے کے اچانک گلی سے بچوں کے شور کرنے اور لوگوں کے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں سب نے باہر نکل کر دیکھا تو ایک کھچڑی داڑھی والے بزرگ نما ہٹے کٹے شخص واحد ماموں کی پٹائی کررہے ہیں اور واحد ماموں پٹائی کھاکر بھی ہنس رہے ہیں۔ نانا نے فوراً جاکر واحد ماموں کو ان شخص سے چھڑایا اور ہنستے ہوئے بولے نور محمد کیا ہوا کیوں مار رہے ہو کیا اس نے تمہیں لال تایا ابا تو نہیں بول دیا جو تم اسے مار رہے ہو ؟ یہ میرا پہلا تعارف تھا نور محمد عرف لال تایا ابا سے ۔ کسی کو نہیں پتا تھا لال تایا ابا کہاں رہتے ہیں مگر ہر اہم موقعے اور شادی بیاہ کی تقریبات میں وہ اچانک سے آموجود ہوتے اور لوگ انکی پر بہار شخصیت سے بہت محضوض ہوا کرتے۔ کبھی کوئی کسی بہانے سے لال رنگ کی تعریف شروع کر دیتا اور لال تایا ابا غصے میں آ کر اسکی پٹائی کردیتے اور پٹنے والے سمیت سب لوگ ہنستے ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجاتے ۔ یہ بات کبھی نہیں معلوم ہوسکی کے لال تایا ابا کو لال رنگ سے اتنی چڑ کیوں تھی ناہی لوگوں کے اصرار کرنے پر کبھی انہوں نے اسکی وجہ بتائی ۔ لال تایا ابا بچوں سے بہت پیار کرتے اور شفقت سے پیش آتے۔ لال تایا ابا کے بس تین شوق تھے انکا پہلا شوق میٹھے چاولوں کا زردہ تھا جسے وہ بہت شوق سے کھاتے تھے لوگوں سے شرط لگا کر پیٹ بھر کر کھانا کھانے کے بعد بھی وہ میٹھے چاولوں کا پورا تھال کھالیتے تھے اور لوگ انکو کھاتے دیکھ کر حیران رہ جاتے کے وہ کس پیٹ میں یہ چاول کھارہے ہیں ۔ انکا دوسرا شوق کھانے کے فوراً بعد پان کھانا تھا یہی وجہ تھی کے انکی جیب میں پان ہر وقت موجود رہتا تھا۔ انکا تیسرا شوق جو عشق کی حد تک تھا وہ یہ کہ مسجد سے آذان کی آواز سنتے ہی وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوجاتے اور انکے قدم مسجد کی طرف چل پڑھتے تھے۔ کیسی بھی دلچسپ محفل جمی ہو یا وہ کسی بھی کام میں مصروف ہوں باقی تمام چیزیں اس وقت انکے لئے بے معنی ہوجاتی تھیں وہ سر جھکا کر وضو کرتے سر پر صافہ باندھ کر کائنات کے بادشاہ کے دربار میں حاضری دینے چل پڑھتے۔ میری اور میرے بھائیوں کی نئے سال کی کتابوں اور کاپیوں پر گتے کی جلد بناکر انکو دیدہ زیب اور مضبوط کردیتے اور انکو کبھی بلانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی وہ خود ہی سال کے شروع میں آموجود ہوتے اور مہارت سے جلدیں چڑھادیتے۔ تب مجھے پتا چلا کے لال تایا ابا کتابوں کی جلد سازی کا کام کرتے ہیں۔ جب لال تایا ابا ہماری کتابوں پر جلد سازی کرتے میں انکے پاس بیٹھ کر دیکھتا رہتا تھا کہ وہ کس مہارت سے یہ کام کرتے ہیں۔ اس دور میں پی ٹی وی پر ڈراموں کا بہت دور تھا لوگ ہر کام چھوڑ کر رات آٹھ سے نو بجے تک ڈرامے ضرور دیکھا کرتے تھے ۔ لال تایا ابا کے سامنے کتنا بھی دلچسپ ڈراما چل رہا ہوتا لیکن ایسا لگتا تھا وہ ڈراما نہیں دیکھ رہے ہیں یا کچھ سوچ رہے ہیں ۔ ایک دن میں نے باتوں میں پوچھ ہی لیا کہ کیا انکو ٹی وی دیکھنے کا شوق نہیں؟ تو کہنے لگے میرے پاس ٹی وی نہیں ناہی مجھے ٹی وی کا شوق ہے ۔ پھر کہنے لگے ہمارے نوجوانی کے زمانے میں لوگوں کو فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا تو ایک بار انکے بڑے بھائی نے انکو پاکستان بننے سے پہلے دہلی شہر کے سینما میں لیجاکر "عالم آرا” فلم دکھائی تھی مگر اسکے بعد انہوں نے کبھی سینما میں قدم نہیں رکھا۔ ایک دن میں نے پوچھا آپکی بیوی بچے کہاں ہیں تو کہنے لگے میں اکیلا کراچی میں رہتا ہوں بیوی اور بچے حیدرآباد میں رہتے ہیں ۔ میرے دو بیٹے ہیں جو دودھ کا کاروبار کرتے ہیں اور اچھا کماتے ہیں ۔ تو میں نے پوچھا پھر آپ اپنی بیوی اور بیٹوں کے ساتھ کیوں نہیں رہتے وہ آپکی خدمت کرینگے اور آپ آرام سے انکے ساتھ رہینگے ۔ کچھ دیر چپ رہے پھر کہنے لگے میرے بیٹے دودھ میں پانی ملاتے ہیں جسکی وجہ سے میں انکی کمائی کو حلال نہیں سمجھتا حالانکہ لوگ میرے بیٹوں کی دکان کے دودھ کی بہت تعریف کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انکا دودھ خالص ہے مگر مجھے تو اصل بات کا پتا ہے اسہی لئے میں اپنے بیٹوں سے کوئی بھی پیسا نہیں لیتا اور جب انسے ملنے جاتا بھی ہوں تو اپنی محنت کی کمائی سے اپنے کھانے پینے پر خرچ کرتا ہوں جس پر وہ مجھ سے بہت ناراض ہوتے ہیں اور میری بیوی بھی مجھ سے اس بات پر لڑتی ہے ۔ یہ بات سنکر میں بہت حیران ہوا اور انکے ایمان کی مضبوطی سے بہت متاثر ہوا۔ لال تایا ابا کے سینے میں اکثر خر خر کی آوازیں آنے لگیں وہ وقت کے ساتھ بہت کمزور ہوگئے تھے پھر پتا چلا انکو ٹی بی ہو گئی ہے مگر سخت سردیوں میں بھی وہ ٹھنڈے پانی سے وضو کرکے نماز پڑھنے مسجد جانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ سخت بیمار ہوگئے اور اسپتال میں داخل کردیے گئے انکے بیٹوں اور بیوی کو اطلاع ملی تو وہ انکو اپنے ساتھ زبردستی حیدرآباد لے گئے جہاں چند دنوں بعد ہی وہ کائنات کے بادشاہ کے مستقل مہمان بن کر اسکی جنتوں کی طرف چلے گئے ۔ لال تایا ابا کا جب بھی خیال آتا ہے ایک احساس شدت سے ہوتا ہے کے وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے ولی تھے اور اپنے رب کے دین کو نہایت مظبوطی سے تھامے ہوئے تھے۔ انہوں نے دنیا کی عارضی زندگی انتہائی سادگی کے ساتھ گزاری ایک مسافر کی طرح اس دنیا سے چلے گئے۔ آج کے نفسا نفسی کے دور میں ایسی ایمان کی مضبوطی والے لوگ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملینگے ۔