بینک بیتیاں- روحانیت اور سلمان


بینک کے ریجنل مینیجر صاحب بڑی شاندار شخصیت کے مالک تھے ۔ یقین مانئے ان جیسی شاندار شخصیت اپنی پوری زندگی میں بہت کم دیکھنے میں آئی ہیں ۔ ریجنل مینیجر صاحب کے فلور پر انکے کمرے کے ساتھ سلمان کی ٹیبل تھی وہیں میری ملاقات سلمان سے ہوئی اور چند ملاقاتوں کے بعد ہی میری سلمان سے اچھی دوستی ہوگئی ۔ سلمان کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا یہاں تک کے ریجنل مینیجر صاحب کو بھی بغیر لگی لپٹی جواب دیتا تھا یہی وجہ تھی وہ سلمان کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ سلمان ایک کھاتے پیتے متمول گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ اسکو اپنی نوکری کی اتنی فکر نہیں تھی ۔
ریجنل آفس میں سلمان کی کسی سے کوئی خاص دوستی نہیں تھی سوائے آصف کے اور وہ اکثر آصف کے پاس بیٹھا نظر آتا تھا۔
سلمان کے اندر کوئی خاص بات تھی یہ بات میں نے چند ملاقاتوں میں ہی محسوس کرلی تھی اور اب مجھے اسکی کھوج لگ گئی تھی ۔ میں جب بھی کسی کام سے اسکے فلور سے گزرتا تھوڑی دیر سلام دعا کیلئے ضرور سلمان کے پاس رکتا تھا ۔ کچھ ہی عرصے میں مجھے اندازہ ہوگیا کہ سلمان کی شخصیت کے جس رخ کو میں کھوج رہا ہوں اسکا تعلق روحانیت سے ہے ۔ اور جب میں نے اس سے روحانیت کے موضوع پر بات کی تو اندازہ ہوا کہ وہ اسی روحانیت کی لائن میں اپنا سفر طے کر رہا ہے ۔مگر سلمان کبھی اپنی ذات کے متعلق کسی سوال کا جواب نہیں دیتا تھا بلکہ یہ کہہ کر بات بدل دیتا تھا کہ تم اپنی بات کرو اپنی جو الجھن ہیں سوال ہیں وہ بتائو شائد میں تمہاری اس سلسلے میں مدد کرسکوں ۔
ایک دن میں نے سلمان سے کہا کہ میں نے روحانیت پر کئی کتابیں پڑہی ہیں اور اب میں روحانیت کو قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں اور وہ اس سلسلے میں میری مدد کرے ۔ میرا خیال تھا کہ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر روحانیت تمام رازوں سے پردہ اٹھا دیگا اور میری روحانیت کے تجربے سے گزرنے کی خواہش پوری ہو جائے گی۔ مگر سلمان نے مجھے کسی صاحب سے بیعت کرنے کا مشورہ دیا جن کے پاس آصف بھی جاتا تھا۔ اب مجھے اندازہ ہوا سلمان کی پورے بینک میں صرف آصف ہی سے کیوں دوستی ہے ۔ سلمان نے آصف سے خود ہی بات کی اور جمعہ کے دن مجھے تیار رہنے کو کہا۔ آصف مجھے لیکر ایک مسجد میں گیا جہاں ایک صاحب جمعہ کی تقریر فرمارہے تھے اسکے بعد انہوں نے نماز پڑھائی اور دعا کے بعد مسجد کے کونے میں اپنے حجرے میں چلے گئے ۔ آصف نے میرا ہاتھ پکڑا اور حجرے میں لے گیا وہاں چند لوگ بیٹھے تھے اور ان صاحب کے ساتھ انکے کوئی نائب بھی بیٹھے تھے ۔ آصف نے انکے پاس جاکر پتا نہیں کیا بات کی تو انہوں نے سر ہلایا اور پھر مجھے اشارہ کیا کہ انکے سامنے دوزانو ہوکر بیٹھ جائوں اور اسم ذات اللہ کا بغیر آواز کے ورد کروں ۔ اسکے بعد وہ کچھ پڑہتے جاتے اور میرے بائیں پستان کے زرا نیچے اپنے ہاتھ کی چار انگلیوں سے زور زور سے ضرب لگانے لگے اور توجہ ڈالتے جاتے ۔ انکے ضرب لگانے سے مجھے کافی تکلیف بھی محسوس ہورہی تھی مگر میں برداشت کرتا رہا۔ اسکے بعد پوچھنے لگے انکے ضرب لگانے سے دل میں کوئی تبدیلی محسوس ہوئی تو میں نے نفی میں سر ہلا دیا ۔ انہوں نے دوبارہ یہی عمل دہرایا مگر مجھے کوئی بھی کیفیت اپنے دل میں محسوس نہیں ہوئی ۔
میرے دائیں جانب بیٹھا نائب انکے قریب ہوا اور انکو کسی کے بارے میں اپنی رپورٹ دینے لگا جو اس کے بقول ابھی ابھی اس نے مراقبہ میں نکالی تھی ۔ رپورٹ بہت زیادہ مایوس کن تھی مگر جب بات کرتے ہوئے نائب صاحب نے میری طرف اشارہ کیا تو مجھے پتا لگا کہ یہ رپورٹ تو میری نکال کر پیش کی جارہی ہے ۔ شرمندگی کی وجہ سے میں اس وقت بالکل سن ہوگیا اور ایک شدید مایوسی کی کیفیت مجھ پر طاری ہوگئی ۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اسی وقت یہاں سے اٹھکر بھاگ جائوں ۔ وہ صاحب فرمانے لگے ہمارے ہاں اسی مسجد میں ہر جمعرات نماز عشاء کے بعد ذکر کی محفل ہوتی ہے آپ شرکت فرمائے گا ۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

تبصرہ کریں