آرٹ آف وار – ڈاکٹر ابو وقاص

ڈاکٹر ابو وقاص معروف دفاعی تجزیہ نگار ہے۔۔۔۔۔۔کراچی اپڈیٹس کے قارئین کے لیے ان کی نئی اآنے والی کتاب "آرٹ آف وار” سے  منتخب اقتباسات پیش خدمت ہیں۔

قوم،دفاع اور جنگ کسی بھی قوم کی تاریخ کا جزوآعظم ہیں کوئی بھی قوم اپنے دفاع سے غافل ہیں رہ سکتی جب بھی دفاع سے غفلت برتی گئی تو بڑی بڑی اقوام خس وخاشاک کی طرح بہ گئیں ان کو زیروزبر کر دیا گیاعلامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

اور چونکہ ہمارا تعلق ایک ایسی قوم سے ہے جواس وقت بہت ہی جاں گسل لمحات سے گزر ہی ہے اس کے سامنے اس کی بقا سوالیہ نشان بن چکی ہے چاروں طرف سے دشمنوں میں گھری ہوئی اس قوم نے ان سخت حالات میں بھی اپنے عزم وہمت اور جانفشانی سے صبر و استقامت کی لازوال داستان رقم کی ہے۔انتہائی نا مساعد حالات میں بھی اپنی بقا کی جنگ میں مصروف عمل رہی،اپنے مقصد سے لگن ، اپنے روشن مستقبل کی امید اور اپنے رب کے بھروسے نے اسے دنیا کی سب سے بڑی اور سب سیے طاقتور اقوام کے مدمقابل لاکھڑا کیا۔یہ تحریر اس پاکستانی قوم کے نوجوانوں کے لیے ہے جو پاکستان کے دفاع کا عزم کیئے ہوئے ہیں ۔اور آرٹ آف وار کے اس اصول سے ہم بات آگے چلاتے ہیں کہ
know yourself know your enemy you can win one hundred battles
ترجمعہ :۔خود کو پہچانو اپنے دشمن کو پہچانو تم ایک سو جنگوں میں فاتح رہو گے

خود کو پہچانوسے مراد ہے کہ اپنی طاقت ،افرادی قوت،ہتھیاروں کی حالت، قوم کا مورال، اپنی قابلیت اپنی استعداد کو جانچ لو اور اپنے دشمن کو پہچانو سے مراد اپنے دشمن کی طاقت ،افرادی قوت،ہتھیاروں کی حالت، قوم کا مورال، دشمن کی قابلی،اور اس کی استعداد کو جانچ لو،اس کی پلاننگ کو جانچ لو پھر تم بے خوف و خطر میدان جنگ میں اتر سکتے ہو تو آیئے دشمن کی جنگوں کی تقسیم اور مستقبل کے پلان دیکھ لیں۔

یونائنڈاسٹیٹس ملٹری انٹیلی جنس میں امریکی دفاعی تجزیہ نگا ر ولیم ایس لنیڈامریکی فوج سے کرنل کیتھ، کیپٹن جان ،کر نل جوزف اور لیفٹینٹ کرنل گرے آئی ولسن نے 1989 میں ایک نظریہ پیش کیا انھو ں نے ماڈرن جنگ کو پہلی نسل ( First Genration Warfar ) دوسری نسل ( 2nd Genration Warfar ) تیسری نسل ( 3rd Genration Warfar) اور چوتھی نسل (4rth Genration Warfar ) میں تقسیم کیا۔ پہلی نسل کی جنگ ( First Generation Warfar ) سے مراد 1648ءمیں ویسٹ فالیا میں امن کے بعد کا جنگوں کا دور جب توڑے دار بندوقوں سے مسلح باقاعد ہ ریاستی فوج لائین اور کا لم فارمیشن (صف بندی )کی حکمت عملی سے پیش قدمی اور جنگ کیا کرتی تھی جس کی مثال انگلش سول وار اور امریکی انقلابی جنگ ہیں ۔

دوسر ی نسل کی جنگوں ( 2nd Generation warfar ) میں لائین اور کالم (صف بندی )کی ٹیکنیک برقرار رہی لیکن جھری دار بندوق، بہتر ایکوریسی، دورما ر رینج، زیاد گولیا ں چلانے کی شرح، مشین گنوں کا استعمال اور توپ خانے کی مدد سے برق رفتا ر پیش قدمی عمل میں آئی اور یو ں یہ بھاری فا ئر پاور کی جنگ تھی ۔ اس نسل کی جنگ میں یوں تو لائین اور کالم کی ٹیکنیک برقرار رہی لیکن زیادہ تر توجہ اس بات پر رہی کہ فوجی چھوٹی ٹکڑیوں میں پیش قدمی کریں جس میں جانی نقصان کم اور برتری حاصل کرنے کے لیے چھپا ﺅ اور تلبیس کی زیادہ صلاحیت حاصل ہو گئی جس کی مثال ا مریکی سو ل وار، پہلی جنگ عظیم ،دوسری جنگ عظیم ہیں۔ تیسری نسل کی جنگیں ( 3rd Generation Warfar ) سبک رفتار آرمد کور گن شپ ہیلی کاپٹر، بمبار جہاز اور جدید میزائل سٹم نے دشمن کی دفاعی لائین عبورکرکے دشمن کے علاقے کی گہرائی میں لمبے فافلے پر اہداف کو نشانہ بنانے کو ممکن بنایا تیسری نسل کی جنگوں میں رفتار اور اچانک پن کا استعمال کیا جاتاہے دشمن کی صفوں کوبائی پاس کرکے ان کے عقب پر ڈائرکٹ حملہ کرکے اسے برباد کیا جا تاہے اور یوں یہ لائین اور کالم کی ٹیکنیک کا اختتام تھا ۔

جونئرافسران کمانڈ ہیڈکوارٹر میں بیٹھے کمانڈوں کی طرف سے لمحہ بہ لمحہ ہدایات کے بغیراپنے اہداف حاصل کرنے لگے چھوٹے یونٹس کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ بدلتی ہوتی جنگ کی صورتحال میں صورتحال کی تبدیلیوں کے مطابق اہم فیصلے کر سکیں نہ کہ دور بیٹھی ہوئی کمانڈ کے احکامات کا انتظار کریں اور یہ رجمنٹ کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سٹم کا اختتام تھا ۔ اس کی مثال ،دوسری جنگ عظیم ،کوریا کی جنگ ،ویتنام کی جنگ، عر ب اسرائیل چھ روزہ جنگ ، افغانستان پر امریکی حملہ، 2003 ءکا عراق پر امریکی قبضہ ہیں۔

چوتھی نسل کی جنگ ( 4rth Generation Warfar ) اس جنگ نے فوج اور سیاست ، سپاہی اور سویلین کے تعلق کو دھندلا دیا نہ یہ شفاف طور پر فوجی آپریشن ہے اور نہ ہی شفاف سیاسی تحریک بلکہ یہ دونو ں کے ملاپ سے ایک نئی جنگ ہے۔ اس میں دشمن سے ڈائیرکٹ ٹکراﺅ سے بچتے ہوئے دشمن کے قومی اتحاد کو کمزور کیا جاتا ہے ۔انرجی رسورسز کو ناپید کیا جاتا ہے۔دشمن ملک میں بجلی ،پانی، گیس کی مسلسل سپلائی ناممکن بنا دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں انڈسٹری اور ایگریکلچر برباد ہو جاتے ہیں۔بے روزگاری بڑھ جاتی ہے ۔عوام کی قوت خرید گر جاتی ہے ۔مختلف نظریاتی گروہ مظبوط جبکہ ریاست کمزور ہو جاتی ہے ۔تشدد، پروپگینڈا،دہشت گردی غرض یہ کہ ہرحربہ آزمایا جاتا ہے۔ریاست مکمل بدحالی کا شکار ہو کر قوت مدافعت کھو بیٹھتی ہے۔اور پھر ریاست پر اپنا ایجنڈا مسلط کردیا جاتا ہے۔ اس میں غیر ریا ستی عناصر (Violent Non State Actor ) استعمال کئے جاتے ہیں ۔ کوئی ایسا نظریا تی گروہ جو اپنی حکومت بنانا چاہتا ہے یا کوئی سابقہ حکومت بحال کرنا چاہتا ہے حرکت میں لایا جاتا ہے احتجاج ، مظاہرے ، مزاحمت کے سا تھ دہشت گردی اور بوقت ضرورت فوجی کاروائی وغیرہ ہوتی ہے، یہ جنگ میڈ یا ،قانو نی ،معاشی ،سیاسی ،عسکری اور اقتصادی غرض یہ کہ ہرہر سطح پر لڑی جا تی ہے اس میں ریاست کو اس بات پر مجبور کیا جا تا ہے کہ وہ نظم ونسق قائم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہافرادی قوت استعمال کرئے زیا دہ سے زیادہ دولت لگائے اور جس کا نتیجہ یقینا مزید ابتری کی صورت میں نکلتا ہے اور بالا آخر ریا ست یا تو ہتھیا ر ڈال جا تی ہے یا دست بردار ہوجا تی ہے اور باغی اپنی حکومت قائم کرنے میںکا میاب ہوجا تے ہیں ۔

یہ جنگ خالصتا اندرونی تحریک اور قو ت سے بھی ہوتی ہے جس کی مثال مشہور زمانہ چین کی شوسلٹ کمیو نسٹ انقلابی جنگ گا ندھی اور محمد علی جناح کی برطانیہ سے آزادی کی جنگ ہے اور یہ بیرونی امداد سے بھی لڑی جا تی ہے جس کی مثال کشمیر کی تحریک آزادی لیبیامیںقذافی کی حکومت کے خلا ف انقلابی جنگ اور افغانو ں کی روس اور بعد میں امریکہ کے خلاف جنگ ہے۔

پانچویں نسل کی جنگ 5th Genration War
یہ جنگ لیفٹیننٹ کرنل البرٹس نے 2010 میں متعارف کروائی ۔یہ جنگ کو ئی نئی ایجاد نہیں ہے بلکہ ہزاروں سالوں سے انسان کے مشاہدے میں موجود ہے آج کے دور میں اسے صرف ایک شناخت دی جارہی ہے انسانی مشاہدات سے اسکے اصول وضع کئے جارہے ہے ہیں بنیادی طور پر یہ ایک پروپیگنڈا وار ہے جس سے دشمن کے مشاہدے کی طاقت کو دھندلا دیا جا تا ہے ۔ یا یوں کہ لیں کہ دشمن کو اندھا کر دیا جاتا ہے کہ وہ حالات کا منظر نامہ صحیح طور پر دیکھ ہی نہیں سکتاوہ پروپیگنڈے کے تحت اپنے دشمن کو دائیں بائیں محسوس کر رہا ہوتا ہے جبکہ دشمن اس کے بلکل سامنے کھڑا ہوتا ہے وہ جہاں خطرہ محسوس کرتا ہے وہاں خطرہ ہوتا ہی نہیںہے درحقیقت وہ مفلوج ہو چکا ہوتا ہے ۔یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میںسای توجہ اس بات پر ہو گی کہ دشمن جس نظر سے دنیا کو دیکھ رہے ہیں اس انداز نظر کو ہی بدل دیا جائے 5GW کے سپاہی خود دشمن قوم کے دانشور ہوں گے جو اپنی ہی عوام کی رائے کو تبدیل کر دیں گے لوگوں کے عقائد ،نظریات ،اور یقین سب کچھ تبدیل کر دیا جائے گا دشمن قوم فزیکلی تو موجود ہو گی لیکن نظریاتی طور پر وہ دشمن نہیں رہیں گے اور ان کے اس دشمن نظریہ کو ہی تباہ کر دیا جائے گا۔کسی بھی قوم کے دفاع میں "O.O.D.A”بنیاد ہے۔
…=Observation….= O مشاہدہ
……=Orientation……= O ترجیہات
…….= Decision…….= D فیصلہ
ٓٓ…….= Action…………= A عمل

انسان جب کسی انجان شخص کو دیکھتا ہے تو غور کرتا ہے کہ ےہ کون ہے، دوست ہے یا دشمن ،اس سے خطرہ محسوس کرتا ہے تواسے دشمن قرار دیتا ہے اسی کو مشاہدہ(Observation) کرنا کہتے ہیں۔پھر ترجیحات (Orientation)طے کرنے کا وقت آتا ہے کہ اس دشمن سے احتراز برتنا ہے اور اسے دور رکھنا ہے ےا اس سے دفاع کرنا ہے یا پھر اس پر حملہ کر دینا ہے ۔ اورپھر فیصلہ(Decision) کرنا ہوتا ہے کہ اگراس دشمن پر حملہ کرنا ہے تو کس ہتھیار سے کس مقام پر کس طریقے سے حملہ کیا جائے گا اور پھر عمل(Action) کی باری آتی ہے کہ مشاہدے اور ترجیہات کے نتیجہ میں جو فیصلہ کیا گےا ہے اس پر فیصلے کے مطابق عمل کیا جائے۔

اسی طرح کوئی بھی قوم اپنے مشاہدے سے ہی دوست اور دشمن کی پہچان کرتی ہے اپنے مشاہدے کی بنا پر ہی اپنے مفادات کا تعین کرتی ہے اور پھر اس مشاہدے کی بناپر اپنے لیے ترجیہات کا تعین کرتی ہے اور پھر ان ترجیہات کی روشنی میں موزوں فیصلے کئے جاتے ہیں ۔ اور پھر ان فیصلوں کی روشنی میں راہ عمل کا تعین کیا جاتا ہے اسی لیے پانچویں نسل کی اس جنگ میں دشمن کے "O.O.D.A” یعنی دشمن کے مشاہدے، ترجیہات ، فیصلے اور عمل کے دائرہ کا ر کو نشانہ بنایا جا تا ہے اور اسے تباہ کر دیا جاتا ہے سب سے اہم یہ ہے کہ آپ کی تمام ترکو شش اس بات پر مرکوز ہونی چاہیں کہ دشمن کا مشاہدہ آپ کی تعین کر دہ سمت میں ہویعنی جو آپ دشمن کو دکھانا چاہتے ہیں دشمن وہ ہی دیکھے اور آپ جو دشمن سے چھپانا چاہتے ہیں اس طرف دشمن کی توجہ جا ہی نہ سکے، وہ حالات کا صحیح خاکہ بنانے میں ناکام رہے وہ صورتحال کو اسی طرح دیکھے جس طرح آپ نے پروپیگنڈا کر کے دکھایا ہو جب آپ دشمن کے مشاہدے کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تودشمن کا مشاہدہ غلط ہو گا اور اسکی ان مشاہدات کی روشنی میں طے کی جانے والی ترجیہات بھی غلط ہوں گی اور پھر غلط ترجیہات کے مطابق غلط فیصلے کئے جائیں گے اور پھر بالآخر یہ فیصلے غلط ا ور غیر موثر عمل (Action ) پر منتج ہوں گے ۔

5-G.W دشمن کے (O.O.D.A ) مشاہدے ترجیہات فیصلوں اور عمل میں براہ راست خود مداخلت کرنے کے بجائے دشمن کے لوگوں کو ہی دشمن کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور اس میں فوکس دشمن کے دانشوروں کی طاقت پر کیا جا تا ہے دشمن کے دانشوروں میں سے افراد کو چنا جا تا ہے اور پھر دشمن کے دانشوروں کی طاقت کو اس کے خلاف استعمال کیا جا تا ہے یہ سب کچھ اس طرح سے کیا جا تا ہے کہ انہیں یہ اندازہ کی نہیں ہو تا کہ وہ ایک جنگ میں اتار دیئے گئے ہیں اور درحقیقت وہ خوداپنے ہی خلاف جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں ۔ چونکہ بنیادی طور پر یہ ایک بہت ہی اونچے درجے کی پروپیگنڈا کی جنگ ہے ، اور آج الیکٹرانک میڈیا اور انٹر نیٹ نے آکر سوشل میڈیا کے میدان میں حیرت انگیز جدت پیدا کردی ہے ،اس جنگ کے نتائج اس وقت اور بھی خطرناک ہو جاتے ہیں۔جب ان دانشوروں کواستعمال کرتے ہوئے میڈیا کے ذریعے دشمن کی عوام اور لیڈر شپ کے درمیان شکوک و شہبات پیدا کئے جاتے ہیں ۔ فوج اور سویلین میں شکوک و شہبات پیدا کئے جاتے ہیں ۔عوام میں بددلی پھیلا دی جا تی ہے ان کے نظریات کو دھندلا دیا جاتا ہے ان کے مقاصد اور ان کے اہداف کو بدل دیا جا تا ہے ان کے (O.O.D.A) مشاہدے، ترجیحات ، فیصلوں، اور دائرہ عمل کو منتشر کر دیا جاتا ہے اور سب کام ان اپنے قومی دانشوروں ان کے اپنے ایکسپرٹس سے لیے جاتے ہیںسچ اور جھوٹ کو ملا کر فیکٹس اور فیگرز پیش کیے جاتے ہیں میڈیا کا رول یہاں اور بھی خطرناک ہو جاتا ہے جب دشمن صحیح طور پر مشاہدہ نہیں کر پاتااور پھر اس غلط مشاہدے پر غلط ترجیہات اپنائی جاتی ہیں جس سے فیصلہ ساز فیصلہ کرنے میں غلطی کر جاتے ہیں اور غلط فیصلہ رہنمائی کرتا ہے غلط عمل کی طرف اور غلط سمت لگائی گئی ساری قوت رائگاں جاتی ہے اور بے نتیجہ ہوتی ہے ۔دشمن اصل خطرے کو پہچان ہی نہیں پاتا۔اور جہاں سے اسے خطرہ ہوتا وہاں وہ دفاع نہیں کرتا۔جس جگہ وہ دفاع لگاتا ہے وہاں سے اسے کوئی خطرہ ہی نہیں ہوتا،وہ گڑبڑا دیا جاتا ہے ۔یہ جنگ کسی ایک سمت میں نہیں لڑی جاتی بلکہ یہ ایک ملٹی ڈائیمینشنل وار ہے ۔چہار سو حملہ کیا جاتا ہے۔ دانشور اپنے ملک کے اصل مسائل کو سمجھ ہی نہیں پاتے یا پھر ان مسائل کے درست حل کی طرف جا نہیں پاتے۔نتیجہ میں شور غوغا ہی ہوتا ہے۔ملک میں ابتری پھیل جاتی ہے۔

اس وقت وطن عزیز پاکستان شدید مشکلات کا شکار ہے۔بات پہلی دوسری یا تیسری نسل کی جنگوں تک ہوتی تو شاید اسقدر مشکل صورتحال نہ ہوتی آج ہم چوتھی نسل کی جنگ کا سامنا کر رہے ہیں جسے معاشی جنگ بھی کہا جاتا ہے ہمیں انرجی کرائیسز کا شکار کر دیا گےاہماری انڈسٹری اور ایگریکلچر بربادی کے دہانے پر لا کھڑے کئے گئے ہماری اقتصادی حالت تباہ ہونے کو ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ جو ہماری نہیں تھی ہماری جھولی میں ڈال دی گئی اس کے باوجود امریکی شکست کھا کر واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں لیکن ےہ 5th جنریشن وارانتہائی خوفناک جنگ ہے۔اس میں ہمارے سامنے کوئی اور نہیں ہمارے اپنے دانشور ہیں ہمارے اپنے سیاست دان ہیں ہمارے اپنے مقرریں ہیں جو ہماری تاریخ کو جھٹلا رہے ہیں عالم اسلام کی سب سے طاقتور ریاست کے اسلامی تشخص کو تباہ کر رہے ہیں ہماری آنے والی نسلوں کو بارآور کروا رہے ہیں کہ دو قومی نظریہ غلط ہے۔ہماری اسلامی شناخت مٹائی جا رہی ہے۔ہمیں پوسٹ ماڈرن ہونے کی ترغیب دلائی جا رہی ہے۔ہمارے بوائز سکولوں میں ہماری عورتوں اور گرلز سکولوں میں مرد اساتذہ کو لگا کر ہمیں کس تہذیب سے آشنا کیا جا رہا ہے۔ہمارے اسکولوں کا نصاب کس طرح تبدیل کیا جا رہا ہے۔مسلئہ کشمیر کو بھول کر ہندوستان سے تجارت کو ہماری معیشت کی مضبوط پالیسی ثابت کیا جا رہا ہے،حالانکہ ےہ جانتے ہوئے کہ پاکستان ایک ذرعی ملک ہے ذراعت سے ہماری 70 فی صد آبادی جڑی ہوئی ہے۔ذراعت ہماری جی ڈی پی کا 26 فی صد ہے۔ذراعت ہماری فارن ایکسچینج آمدنی کا 70فی صد مہیا کرتی ہے۔اور ذراعت پانی کے بغیر ممکن نہیں اس وقت پانی ہمارے پاس نہیں ہے ہمارے صوبوں میں جھگڑے پانی کی تقسیم کے ہیں جبکہ دنیا کا سب سے بڑا مربوط نہری نظام پاکستان میں ہے جس کے دریاﺅں کا پانی خشک ہو رہا ہے ہندوستان ہمارے پانی کو موڑ کر اندراگاندھی کینال میں ڈال کر راجھستان کہ سیراب کر رہا ہے۔ہمارے ماہرین ٹیوب ویل لگانے میں مصروف ہیں۔2004تک پاکستان میں سات لاکھ سے ذیادہ ٹیوب ویل لگ چکے ہیںہمارے شہروں میں واٹر لیول مسلسل گر رہا ہے جس کی وجہ سے آرسنک کی مقدار پانی میں بڑہ رہی ہے ہزاروں ذمیندار ہر سال اپنے ٹیوب ویل اکھاڑ کر اپنے بور اور گہرے کر رہے ہیںجو ذمینداروں کو اقتصادی طور پر توڑ کر رکھ دے گا۔ےہ لاکھوں ٹیوب ویل ہزاروں میگاواٹ بجلی خرچ کرتے ہیں ۔ہماری انرجی کرائسز کی بڑی وجہ ےہ ٹیوب ویل بھی ہیں ےہ تو تب ہی بند ہو سکتے ہیں جب ہماری نہروں اور دریاﺅں میں پانی ہو اور وہ کشمیر کی آزادی کے بنا ممکن نہیں ۔ہمیں تو بعد میں پتا چلا کہ دنیا کی سب سے سستی بجلی پانی سے پیدا ہوتی ہے۔لیکن ہمارے مشاہدے کو دھندلا دیا گیا۔ہمیں ہمارے مسائل کا حل متبادل توانائی کے ذرائے دھونڈنے میں بتایا گیا۔ہمارے نوجوان اندھیروں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں کہ کیا کریں ہماری قوم کو کس طرح اس بحران سے نجات ملے۔ انہیں کون بتائے کہ توانائی کے تمام متبادل ذرائعے بہت مہنگے حل پیش کرتے ہیںجو ہماری معیشت برداشت نہیں کر سکتی ۔ہمارے دانشوروں کو کون بتائے کہ 5th جنریشن وار فئیر میں ےہ ہی کیا جاتا ہے کہ دشمن کو اپنے مسائل کو شناخت کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا جاتا ہے اپنے مسائل کا حل سمجھنے سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

پانی کے بعد سب سے سستی بجلی کوئلے سے پیدا ہوتی ہے اور دنیا کا سب سے بڑا کوئلے کا کسی ایک جگہ ذخیرہ سندھ میں تھر کے مقام پر ہے جس سے اتنی بجلی پیدا ہو سکتی ہے کہ پاکستان صدیوں تک استعمال کر سکتا ہے لیکن آفرین ہے ان دانش وروں پر اس کو بھی متنازع بنا دیاصاف جھوٹ بول دیا گیا کہ ےہ کوئلہ تو نکالا ہی نہیں جا سکتا (un recoverable coal reserves)اس لئے ڈاکٹر ثمر مبارک کو روک دیا جائے جبکہ 1974تک روسی ایسے ہی (unrecoverable coal reserves) ذخائر سے انڈر گراونڈ گیسی فیکیشن کے ذریعہ بجلی پیدا کرتے رہے ہیں وہ تو سائبیریا کے گیس کے بے بہا ذخائر دریافت ہونے کے بعد گیس پر منتقل ہوئے ۔امریکہ آج بھی انڈر گراونڈ گیسی فیکیشن کے ذریعہ اپنے کوئلے کے ذخائر کو استعمال میں لا رہا ہے لیکن 5thجنریشن وار جو ہم پر مسلط ہے ہمیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر رہی ہے اور استعمال ہمارے اپنے ہی لوگ ہو رہے ہیں۔

آج ہمیں ہمارے داانشور یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ ہندوستان کو غیر مشروط طور پرپسندیدہ ترین ریاست کا درجہ دے دینا چاہئے ہندوستان کے ساتھ تجارت میں ہی پاکستان کا فائدہ ہے۔بات یہ ہے کہ ہندوستان پر ڈپنڈنٹ ہونا ہماری خود مختاری کو ہی سوالیہ نشان بنا جائے گا۔آپ کو یاد ہو گا کہ ساٹھ کی دہائی میں کیا ہوا تھا جب ہم کوئلہ ہندوستان سے منگواتے تھے اور ہندوستان نے کوئلے کی سپلائی بند کر دی تھی اور ہم حیران رہ گئے تھے ہم بلیک آوٹ کا سامنا کر رہے تھے ہماری ٹرینیں کھڑی رہ گئی تھیں وہ تو چین نے فوری طور پر کوئلہ فراہم کر دیا اور ہم مشکل سے نکل آئے۔آج ہمارے اینکرز اور دانشور بضد ہیں کہ نہیں اس دور میں تجارت سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کمال ہے امریکہ کے قانون میں 1974میں جیکسن ترمیم کی گئی اور لکھ دیا گیا کہ امریکہ کبھی بھی روس کو پسندیدہ ترین ریاست کا درجہ نہیں دے گا کیونکہ روس نے یہودیوں کے انسانی حقوق کوپامال کیا ہے۔یورپی ےونین ترکی کے مسلسل ترلوں کے باوجود ترکی کو یورپی یونین میں شامل کرنے کو تیار نہیںاور انسانی حقوق کے مسئلے کو بنیاد بنا کر ترکی کو رد کر دیا۔برطانیہ نے کتنی مرتبہ کتنے ممالک سے تجارتی تعلقات توڑ لیئے انسانی حقوق کے معاملے پر۔لیکن ہمارے دانشور بضد ہیں کہ کشمیر کی بات چھوڑ دیں اور ہندوستان سے پیار محبت کی پینگیں بڑہائیں۔جبکہ ایسا کرنا ہمارے وجود کے لیئے خطرناک تریں شے ہے۔کشمیر کا مسئلہ حل ہو ہماری زمینوں کو پانی ملے ہماری انڈسٹری کو بجلی ملے پھر ہم اپنی مارکیٹ کو بھی اوپن کر سکتے ہیں۔

ڈی اے پی کھاد کا استعمال ہمارے پاکستان کی قابل کاشت زمینوں کے تقریبا ہر مربع گز پر ہوتا ہے پاکستان کی مٹی کے 23لاکھ نمونوں کا تجزیہ کرنے سے پتا چلا کہ ہماری زمیں کی ph8 ہے اور ڈی اے پی کا لمبے عرسہ تک استعمال اسے بنجر بنا رہا ہے ہر سال اربوں ڈالر کی ےہ کھاد باہر سے منگوا کرپاکستان کی مٹی پر ڈالی جا رہی ہے ۔جبکہ پاکستان میں راک فاسفیٹ کے پہاڑ قدرتی طور پر موجود ہیں جس کی ph2 ہے جس کے پتھر صرف پیس کر زمین میں ڈال دیں تو وہ ہماری زمیں کے لئے بہتر ین کھاد ہے لیکن راک فاسفیٹ مٹی کے بھاﺅ ہندوستان جا رہی ہے۔ےہ سب کچھ ہمارے دانشوروں کے علم میں ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی ہی قوم کو مسلئہ کے صحیح حل کی طرف نہیں لا رہے بلکہ اپنی ہی قوم کے خلاف میدان جنگ میں اترے ہوئے ہیں۔

آذادی کے وقت بلوچستان وہ واحد آزاد ریاست تھی اور بلوچ وہ قوم تھی جس نے پاکستان سے الحاق کے وقت بانی پاکستان محمد علی جناح کو سونے سے تول کر پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا تھا۔لیکن آج بلوچوں کو غداری کا لیبل لگا دیا گیا اور بلوچستان کو ایک مسلئہ بنا کررکھ دیا گیا۔آج بھی آپ برٹش گورنمنٹ کی بنائی ہوئی ملٹری پالیسی پر عمل پیرا ہیںخدارا سوچیئے وہ پالیسی ایک غاضب قابض قوم کی ایک غلام قوم کے لیئے تھی ۔ہمارا دشمن ہماری نظروں سے اوجھل کر دیا گیا ہمارے دوست ہمارے مدمقابل لا کھڑے کیئے ۔ہم تو جب جب بھی بلوچوں سے ملے اور نبی عربی ﷺ کا نام لیا تو ہم نے ان کی آنکھوں میں پانی اترتا دیکھا وہ آج بھی اسلام اور مسلمانوں سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جیسے آپ لیکن ہمارے میڈیا نے ان کی جو تصویر دکھائی ہے وہ ان کی صحیح عکاسی نہیں کرتی آج بھی آپ بلوچستان جائیںلیکن 1947والے پاکستانی حکمران بن کر جائیںوہ کرسی نہیں مانگتے بس انہیں سینے سے لگا کر لاالہ ا لااللہ محمد رسول اللہ کا تحفہ دے دیں وہ آپ کے ساتھ ہو ں گے ۔وہ آج بھی 1947والی پوزیشن میں ہیں آج بھی پورے پاکستان کا وہی اسلام کاسوال ہے۔کیا آپ ےہ انہیں دے سکتے ہیں ۔لیکن آج آپ سے آپ کا اسلامی تشخص چھینا جا راہا ہے۔اسلامی نظام کہ فرسودہ ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کی جا رہی ہے یہ ہی وقت ہے 5th جنریشن وار فیئر میں کیل کانٹے سے لیس ہو کر اترنے کا وہ آپ کے دیں کو مسخ کر کے پیش کر رہے ہیں ایسے وقت میںصحیح پاکستانی صحیح اسلامی سوچ کے حامل دانشوروں ،علمائ،اور مقرین کو ےہ جان لینا چاہئے اس بار جو میدان جنگ سجا ہے اس میں آپ کو اترنا ہے ےہ influenceکی جنگ ہے۔دشمن نے اعلان کیا ہے کہ
“War is a mixture of two forms of strategic power: violence and influence:”
جنگ دو اقسام کی تذویراتی طاقتوں کا مجموعہ ہے ایک تشدد(دست بدست لڑائی) اور دوسرا اثر نفوذ(لوگوں کو ہمنوا بنانا)
“in 5th GW war
The ability to shape the perception,and therefore the opinions of a target audience is far more important than the ability to deliver kinetic energy,
and will determine the ultimate victor in tomorrow’s wars.”
5th نسل کی جنگ میں سوچ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت اہم ہے کیونکہ جنگ کو عملی جامہ پہنانے کے مقابلہ میںسامعین کی رائے زیادہ اہم ہے جو کل آنے والی جنگ میں یقینی فتح کی رہنمائی کرتی ہے

ہماری اعلی قیادت کو اس بات کا یقینا علم ہو گا کہ اس 5th جنریشن کی جنگ میں ہمارے قیمتی ترین افراد وہ ہی ہیں جورائے عامہ پر اثر اندازاثر انداز ہو سکتے ہیں دشمن ہمارے ہی لوگوں کو ہمارے مقابلے میں اس طرح لے آیا ہے کہ وہ خود بھی نہیں جانتے کہ وہ خود اپنے ہی خلاف جنگ میں اتار دیئے گئے ہیں ہم ایک بہت ہی مشکل جنگ میں اتار دئے گئے ہیں جب کہ اس جنگ میں ہمارا مذہب ہمارا کلچر ہمارا وطن سب کچھ داﺅ پر لگ چکا ہے۔ خطرے کی شدت کو پہچانیئے یہ ہی وقت ہے اس جنگ میں اپنے ظاقتور ترین گھوڑے اتار دیجئے۔

شام میں امریکی فوج اتارنے کی بے چینی

امریکا شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر بہت بے چین ہے، کیونکہ یہ انسانی حقوق کی
خلاف ورزی ہے۔ احتجاج عوام کا جمہوری حق ہے۔ شامی حکومت کے خلاف کسی بھی وقت
کارروائی کے لیے امریکی حکومت صدر اوباما کے آخری اشارے کی منتظر ہے۔ امریکی
حکمران اور عالمی ضمیر شام کے حوالے سے بے چین ہیں، اور بہت سے لوگ جو تجزیے
کررہے ہیں ان تجزیوں کا رخ بھی یہی ہے کہ شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی انتہا
ہوگئی ہے۔ ان کا کہنا بالکل بجا ہے۔ لیکن اب کیا ہونے جارہا ہے ابھی سے اس پر غور کرلیں۔
کچھ چیزوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب میں امریکی افواج اتارنے سے قبل
عراق کی کویت پر چڑھائی ہوئی تھی، افغانستان میں امریکی افواج اتارنے سے قبل بامیان کے
بتوں کو توڑا گیا تھا، اور پاکستان میں ہمنوا حکومت لانے کے لیے نوازشریف کی حکومت کو
برطرف کیا گیا، اور یوں یہاں ایک ایسی حکومت قائم کی گئی جو ہر طرح سے امریکیوں کی
مددگار ہو۔ پھر 9/11 ہوگیا۔

دوبارہ عرب دنیا کی طرف چلیں۔ اب مصر وشام کو کنٹرول کرنے اور اسرائیل کو تحفظ دینے
کے لیے امریکی افواج کی موجودگی ضروری ہوگی۔ انسانی حقوق کے بہت سے حامی ادارے
بھی امریکی فوج کو شام میں اتارنے کی حمایت کررہے ہیں۔ اگر امریکی افواج شام میں اتر
گئیں تو اردن اور لبنان کے راستے ان کی پہنچ اسرائیل اور مصر تک ہوگی۔ یہ فاصلہ بھی
محض ساڑھے سات سو میل ہے۔ اتنے قریب امریکی افواج کی موجودگی کا مقصد محض شام
میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو روکنا نہیں ہوسکتا۔ یہ تجربہ بھی ہے اور ریکارڈ بھی کہ
امریکی کیمیائی ہتھیاروں اور پائوڈرز یا اینتھریکس وغیرہ کے شبہ سے بھی بیمار ہوجاتے
ہیں، یہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد اس سرزمین پر کیا کریں گے! ہمارے خیال میں
امریکی افواج اس خطے میں موجود رہنا چاہتی ہیں، اس کے لیے ان کی موجودگی کا آدھا پونا
جواز تو ہونا ہی چاہیے تھا۔ پاکستان اور افغانستان میں، اور اس سے قبل سعودی عرب اور
عراق میں امریکی افواج کی موجودگی کا جواز نہیں تھا، بلکہ اگر کسی غیر ملکی فوجی قوت
کی موجودگی کی کوئی گنجائش نکلتی ہے تو وہ اقوام متحدہ کی امن فورس ہے، لیکن اقوام
متحدہ کی امن فورس تو بہت پیچھے رہ جاتی ہے، سب کی قیادت امریکی افواج کرتی ہیں، پھر
جب معاملات قابو سے باہر ہوجاتے ہیں تو 26 ملکوں کی افواج لائی جاتی ہیں۔

جس عالمی ضمیر کا ذکر اکثر ہوتا ہے اگر وہ کہیں ہے بھی تو سورہا ہے۔ اسی نیند اور
غنودگی کے عالم میں یہ اس قسم کے فیصلوں کی منظوری دے دیتا ہے، پھر باقی کام امریکی
افواج کرتی ہیں۔ آنے والے دن بڑے اہم ہیں۔ سب مل کر شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال
پر آنسو بہا رہے ہیں اور امریکا کو اپنی فوج شام میں اتارنے کی اجازت دینے کی باتیں
کررہے ہیں۔ وہ مصر میں اخوان کے خلاف کیمیائی گیس کے استعمال پر احتجاج نہیں کررہے،
مظاہرین کو ان کے حق سے محروم کرکے رابعہ عدویہ پر ٹینک چڑھانے اور شہداء کی
لاشیں جلانے پر خاموش ہیں۔ جو اطلاعات سامنے آرہی ہیں وہ یہی بتا رہی ہیں کہ مصری
افواج تمام تر قوت اور امریکی و اسرائیلی حمایت کے باوجود مرسی کے حامیوں اور اخوان
کے سامنے قدم جمانے میں مشکلات محسوس کررہی ہیں، چنانچہ انہیں بظاہر دنیا کی سب سے
بڑی فوجی قوت کی ضرورت ہے، اس کی مدد کے لیے اس کی زمین پر موجودگی ضروری
ہے، اس لیے شام کی صورت حال پر تشویش میں اضافہ ہورہا ہے تاکہ شام میں جلداز جلد
امریکی افواج اتار دی جائیں۔ کون نہیں جانتا کہ یہ اس ملحمتہ العظمیٰ کی تیاری یا آغاز ہے
جس کا ذکر احادیث میں آیا ہے یا ابھی اس میں وقت ہے، لیکن آثار ایسے ہی نظر آرہے ہیں۔
ساری دنیا کی قوتیں اس خطے میں جمع ہورہی ہیں۔ چونکہ ہم اس حوالے سے کوئی واضح علم
نہیں رکھتے اس لیے سمجھتے ہیں کہ شام کی حکومت کو روکنے کے لیے امریکی افواج کو
اتارنا زیادہ خطرناک ہوگا۔اس لیے اسے روکنا زیادہ ضروری ہے۔ پھر بھی اگر خدا کی مرضی
اسی میں ہے کہ وہ یہاں کسی آزمائش میں آئیں تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔

…مظفر اعجاز…