عقیدہ ظہور امام مہدی کی اسلام میں حیثیت

عقیدہ ظہور امام مہدی کی اسلام میں حیثیت
مصنف: بنیاد پرست
ایک بلاگر نے اپنے بلاگ پر امام مہدی کے بارے میں اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے کچھ کمنٹس دیے.
” میں تو سمجھتی تھی کہ یہ امام مہدی کا چکر شیعوں سے تعلق رکھتا ہے لیکن اسکی جڑیں سنیوں میں پائ جاتی ہیں”۔

ایک مبصر کے متوجہ کرنے پر کہ امام مہدی کا تذکرہ تو احادیث میں بکثرت موجود ہے ’کے جواب میں لکھا کہ
” کسی چیز کا منبع اگر قرآن میں موجود نہیں ہے تو کیا احادیث سے اسکا حوالہ کافی ہے ؟ ایمان کی دو بنیادی شرائط ہیں اللہ کی وحدت اور رسول کی نبوت ۔اسکے علاوہ ایمان مفصل یا ایمان مجمل دونوں میں امام مہدی پہ ایمان لانے کا تذکرہ نہیں۔”

اس کے بعد کچھ ملحد قسم کے تبصرہ نگاروں نے اپنی ازلی بدبختی کا اظہار کرتے ہوئے امام المجاہدین شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کے بارے میں اپنی بدبو دار ذہنیت کا اظہار کیا ہی ، ساتھ حضرت امام مہدی کے بارے میں بھی زبان درازی کی، ایک بد بخت نے امام مہدی کو طنزیہ انداز میں پیر مہدی اور عیسی علیہ السلام کو نعوذبااللہ مسیح ری لوڈڈ کہہ کر اپنی کفر اور منافقت کا کھلم کھلا اظہار کیا۔

یہ طبقات تو محض اپنی روشن خیالی اور دین بیزاری کی وجہ سے صحیح احادیث میں تواتر کے ساتھ بیان کیے گئے اور اہل سنت والجماعت کے اہم عقیدہ ” عقیدہ امام مہدی” سے بے خبر ہو نے کی وجہ سے اس بارے زبان درازی کرتے ہیں، ان کے علاوہ بھی ایک طبقہ ہے جو بظاہر دیندار کہلاتا ہے لیکن امام مہدی کے بارے میں لکھی گئی کتابوں اور انکے اخیر زمانہ میں ظہور اور مسلمانوں کی نشاط ثانیہ میں کردار کی احادیث اور واقعات کو محض فکشن سمجھتا ہے اس کو ایک غیر اہم موضوع قرار دیتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح حدیث جن کی تشریح وتطبیق نہیں بلکہ الفاظ ان واقعات کے شہادت دیے رہے ہیں ’ کا ظاہری طور پر انکار کرتے ہوئے یہ کہہ رہا ہے کہ امام مہدی کا ظہور صرف قیامت کی ایک نشانی ہوگی بس، باقی سب غلط تطبیق اور تشریحات ہیں۔

میں کوشش کروں گا کہ اس مسئلہ پر اسلامی ذخائر علوم کے مستند حوالوں کے ساتھ روشنی ڈالوں۔

دین میں حدیث کا مقام

امام مہدی کے متعلق مستند احادیث سے کچھ لکھنے سے پہلے میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن و حدیث اتباع اور حجت کے اعتبار سے ایک ہی درجہ میں ہیں ،کتاب وسنت دونوں ہی اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہیں اور ان کی اتباع واجب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ارشاد فرمایا :
اور نہ تو وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔ ( النجم 3 -4)

اور مقدام بن معدی کرب بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خبردار بیشک مجھے کتاب اور اس کے ساتھ اس کی مثل بھی دی گئی ہے، ہو سکتا ہے کہ ایک وقت آئے اور ایک آدمی ناقص العقل اپنے گاؤ تکیہ پر بیٹھا ہو اور تمہیں یہ کہے کہ صرف اس قرآن پر ہی عمل کرو اس میں جو حلال ہے اسے حلال جانو اور جو حرام ہے اسے حرام جانو ۔
(ابو داؤد حدیث نمبر (4604)

اس لیے علما ئے اہل سنت کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ حدیث کا منکر، اسکو کمتر سمجھنے والا اوراسکا مذاق اڑانے والا کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

احادیث کی تطبیق

احادیث کی مناسب تطبیق خود صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے۔ ملاحظہ فرمائیں

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے جیسا کہ وعظ و خطبہ کیلئے کھڑے ہوتے ہیں چنانچہ وعظ فرمایا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فتنوں سے آگاہ فرمایا جو اس وقت سے لیکر قیامت تک وقوع پذیر ہونے والی تھیں، ان سب کو ذکر فرمایا اور ان میں سے کوئی چیز بیان سے چھوڑی نہیں، ان باتوں کو یاد رکھنے والوں نے یاد رکھا اور جو بھولنے والے تھے وہ بھول گئے اور بعض لوگوں نے فراموش کردیا. میرے یہ دوست (یعنی صحابہ) اس واقعہ سے واقف ہیں لیکن ان میں‌سے بعض ان باتوں‌کو جانتے ہیں اور بعض کو تفصیل کے ساتھ یاد نہیں کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ نسیان کا طاری ہوجانا انسانی خواص سے ہے، میں بھی انہی لوگوں میں سے ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جن باتوں کی خبر دی تھی اور جن باتوں‌کو میں بھول گیا ہوں اگر ان میں‌سے کوئی بات پیش آجاتی ہے تو میں اس کو دیکھ کر اپنا حافظہ تازہ کرلیتا ہوں جس طرح کہ جب کسی غائب شخص کا چہرہ نظر آجاتا ہے تو وہ چہرہ دیکھ کر اس شخص کو پہچان لیا جاتا ہے. (بخاری ومسلم بحوالہ مظاہر حق جدید شرح مشکوۃ شریف جلد چہارم کتاب الفتن الفصل الاول حدیث نمبر 1)

عقیدہ امام مہدی اور شیعہ

امام مہدی کا عقیدہ خالص اہل سنت کا عقیدہ ہے، شیعہ مذہب کے وجود میں آنے سے تیس سال پہلے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں امام مہدی کے بارے تفصیل بتادی تھی، اہل سنت کا عقیدہ امام مہدی انہی احادیث پر مشتمل ہے، شیعہ کی امام مہدی کے بارے میں بیان کی گئی روایتوں کا بغور مطالعہ کرنے والا آسانی سے اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ شیعہ کا امام مہدی حقیقت میں وہی ہے جسے دجال کہا جاتا ہے، مثلا شیعہ کی کتابوں کے مطابق انکا امام مہدی (اصل قرآن) لے کر غار میں چھپا بیٹھا ہے اور قیامت کے قریب اس غار سے خروج کرے گا اور دجال کے متعلق بھی روایتوں میں یہی کچھ لکھا ہے کہ وہ غار میں چھپا ہوا ہے، اور شیعہ کی کتابوں کے مطابق یہ بھی خدائی کاموں پر کنٹرول رکھتا ہوگا اور دجال کے متعلق بھی احادیث میں یہی بیان کیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ خلاصہ یہ کہ کسی شیعہ، قادیانی، بہائی فرقہ کے امام مہدی کے متعلق عقیدہ کا احادیث میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ “مسئلہ مہدی” کے بارے میں اہل حق کا نظریہ بالکل صحیح اور متواتر ہے اور اہل باطل نے اس سلسلہ میں تعبیرات و حکایات کا جو انبار لگایا ہے نہ وہ لائق التفات ہے اور نہ اہل حق کو اس سے مرعوب ہونے کی ضرورت ہے۔

حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اہل سنت کا عقیدہ

امام مہدی کے متعلق جن صحابہ کی روایات احادیث کی کتابوں میں ذکر کی گئی ہیں ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت انس رضی اللہ ، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا وغیرہ جیسے جلیل القدر صحابہ و صحابیات شامل ہیں۔

اہل سنت ولجماعت عقیدہ کی مستند کتاب عقیدہ سفارینی اور شارع نے امام مہدی کی تشریف آوری کے متعلق معنوی تواتر کا دعوی کیا ہے اس کو اہل سنت والجماعت کے عقائد میں شمار کیا ہے، لکھتے ہیں:
” امام مہدی کے خروج کی روایتیں اتنی کثرت کے ساتھ موجود ہیں کہ اس کو معنوی تواتر کی حد تک کہا جاسکتا ہے اور یہ بات علمائے اہل سنت کے درمیان اس درجہ مشہور ہے کہ اہل سنت کے عقائد میں ایک عقیدے کی حیثیت سے شماری کی گئی ہے” ( شرح عقیدہ سفارینی ص 79)

امام مہدی کے متعلق امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا موقف :

شاہ ولی اللہ اپنی کتاب ازالتہ الخفا میں لکھتے ہیں :

” ہم یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نص فرمائی ہے کہ امام مہدی قرب قیامت میں ظاہر ہوں گے اور وہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک امام برحق ہیں اور وہ زمین کو عدل وانصاف کے ساتھ بھر دیں گے جیسا کہ ان سے پہلے ظلم اور بے انصافی کے ساتھ بھری ہوئی تھی۔ ۔ ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد سے امام مہدی کے خلیفہ ہونے کی پیش گوئی فرمائی اور امام مہدی کی پیروی کرنا ان امور مین واجب ہوا جو خلیفہ سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ ان کی خلافت کا وقت آئے گا، لیکن یہ پیروی فی الحال نہیں بلکہ اس وقت ہوگی جبکہ امام مہدی کا ظہور ہوگا اور حجر اسود اور مقام ابراھیم کےدرمیان ان کے ہاتھ پر بیعت ہوگی۔
(ازالۃ الخفا جلد 1، صفحہ 6)

حضرت امام مہدی احادیث کی روشنی میں

حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے اور جس پر اہل حق کا اتفاق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کی نسل سے ہوں گے اور نجیب الطرفین سید ہوں گے۔ ان کا نام نامی محمد اور والد کا نام عبداللہ ہوگا۔ جس طرح صورت و سیرت میں بیٹا باپ کے مشابہ ہوتا ہے اسی طرح وہ شکل و شباہت اور اخلاق و شمائل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں گے، وہ نبی نہیں ہوں گے، نہ ان پر وحی نازل ہوگی، نہ وہ نبوت کا دعویٰ کریں گے، نہ ان کی نبوت پر کوئی ایمان لائے گا۔ان کی کفار سے خوں ریز جنگیں ہوں گی، ان کے زمانے میں کانے دجال کا خروج ہوگا اور وہ لشکر دجال کے محاصرے میں گھِرجائیں گے، ٹھیک نماز فجر کے وقت دجال کو قتل کرنے کے لئے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور فجر کی نماز حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں پڑھیں گے، نماز کے بعد دجال کا رخ کریں گے، وہ لعین بھاگ کھڑا ہوگا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا تعاقب کریں گے اور اسے “بابِ لُدّ” پر قتل کردیں گے، دجال کا لشکر تہ تیغ ہوگا اور یہودیت و نصرانیت کا ایک ایک نشان مٹادیا جائے گا۔

خلاصہ

اس عقیدہ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر تمام سلف صالحین، صحابہ و تابعیناور ائمہ مجددین معتقد رہے ہیں۔ آخری زمانے میں ایک خلیفہ عادل کے ظہور کی احادیث صحیح مسلم، ابوداوٴد، ترمذی، ابن ماجہ اور دیگر کتب احادیث میں مختلف طرق سے موجود ہیں۔ یہ احادیث اگرچہ فرداً فرداً آحاد ہیں مگر ان کا قدر مشترک متواتر ہے۔ آخری زمانے کے اسی خلیفہ عادل کو احادیثِ طیبہ میں “مہدی” کہا گیا ہے، جن کے زمانے میں دجال اعور کا خروج ہوگا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوکر اسے قتل کریں گے۔ بہت سے اکابر امت نے احادیثِ مہدی کو نہ صرف صحیح بلکہ متواتر فرمایا ہے اور انہی متواتر احادیث کی بنا پر امتِ اسلامیہ ہر دور میں آخری زمانے میں ظہورِ مہدی کی قائل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے عقائد پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں بھی “علاماتِ قیامت” کے ذیل میں ظہورِ مہدی کا عقیدہ ذکر کیا گیا ہے،

کیا ہمیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اما م مہدی کے انتظار میں بیٹھ جانا چاہیے ؟

احادیث میں اخیر زمانہ میں امام مہدی کا نجات دہندہ بن کر نکلنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سب کچھ چھوڑ پر بس انکے انتظار میں لگ جائیں، بلکہ اپنے عقائد، اعمال اور نظریات کی فکر کرتے رہیں اور اعلا کلمتہ اللہ کے لیے اپنی صلاحیتوں کو استعمال میں لاتے رہیں ۔ احادیث میں یہ بات منقول ہے کہ امام مہدی سے لڑنے کے لیے روانہ ہونے والا پہلا لشکر مسلمانوں کا ہی ہوگا، یہ کون لوگ ہوں گے؟ حقیقت میں یہ وہ نام نہاد مسلمان ہوں گے جو فکری ارتداد کا شکار ہوچکے ہوں گے اور ان کو حضرت مہدی کے رفقا دہشت گرد ، شدت پسند اور بنیاد پرست نظر آرہے ہوں گے۔

یہ بات مجرب ہے کہ فکری ارتداد کی یہ لہر جو آج کل خصوصا نوجوان طبقہ میں اٹھ رہی ہے یہ ان فتنہ باز پروفیسروں ، ڈاکٹروں اور سکالروں کے مذاکرے اور مباحثے سننے کا نتیجہ ہے جس سےعوام میں فکری آزاد خیالی اور کفریہ نظریات پیدا ہورہے ہیں ، یہ کفریہ نظریات کا کانٹا ایسا ہے کہ لاکھ سمجھاؤ دل سے نہیں نکلتا۔ یہ ایمان کے ڈاکو اتنے چالباز ہیں کہ خبر بھی نہیں ہوتی کہ متاع عزیز لوٹ لیتے ہیں، پروگرام ختم نہیں ہوتا کہ ایمان ٹھکانے لگ چکا ہوتا ہے ۔ چونکہ حضرت مہدی بنیادی طور پر ایک جہادی لیڈر کے طور پر سامنے آئیں گے اور پوری دنیا میں طاغوت کے خلاف جدوجہد کا اعلان کریں گے، اس لیے عموما ان نام نہاد ڈاکڑوں، فتنہ باز پروفیسروں اور اس دجالی میڈیا کا ہدف جہاد اور مجاہدین ہوتے ہیں، آج امت کے اس طبقہ کے خلاف اس طریقے سے پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ اب یہ بات یقینی لگتی ہے کہ اگر آج امام مہدی کا ظہور ہوجائے تو ان گمراہ لوگوں اور میڈیا کو سننے، دیکھنے والے مہدی کی علامات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی انکا ساتھ نہ دیں گے بلکہ اپنے گھروں میں بیٹھے علما، طالبان اور مجاہدین پر تبصرے کرتے رہیں گے۔ اگر ہم نے اس فتنہ کے دور میں اپنا ایمان بچانا ہے تو قرآن کی نصیحت ” کونو مع الصدقین” سچو ں، ایمان والوں کے ساتھ ہوجاؤ ’ ہی ایک نجات کا ذریعہ ہے۔ انبیا کا سلسلہ تو ختم ہوچکا ہے ، ہاں ا ن کے سچے وراثین اب بھی موجود ہیں، ہم ان سے تعلق بنائے رکھیں اور وساوس کے حل کے لیے ان سے رجوع کرتے رہیں ۔

 
http://bunyadparast.blogspot.com/2011/05/blog-post.html