بینک بیتیاں- روحانیت اور سلمان (دوسرا حصہ)

پیر سے مجھے دوسری برانچ میں جوائننگ دینی تھی اسلئے سلمان سے میری فون پر تفصیلی بات ہوئی۔ میں بیعت کیلئے بالکل بھی تیار نہیں تھا یہ بات میں نے سلمان کو بتادی اور یہ بھی بتایا کہ نائب صاحب نے میری پوری رپورٹ نکال کر ان صاحب کو پیش کی ہے جس سے مجھے بہت شرمندگی ہوئی اور مجھے لگا کہ کسی کے عیوب اس طرح موجودگی میں ڈسکس نہیں کرنے چائیے ہیں سلمان اس بات کو سنکر خاموش ہوگیا۔ کہنے لگا تم پھر بھی کوشش کرکے انکے ذکر میں شرکت کرو مجھے یقین ہے تمہیں بہت فائدہ ہوگا اور ان صاحب کے حلقے میں بہت جلد روحانی ترقی ملتی ہے ۔ میں نے سلمان سے پوچھا آپ کیوں ان صاحب کے ذکر میں شرکت نہیں کرتے تو کہنے لگا میری بات چھوڑو میرا معاملہ دوسرا ہے اور تمہیں یہ بات ابھی سمجھ نہیں آئے گی ۔
اگلے ہفتے میں بینک کے بعد سیدھا انکی مسجد میں پہنچ گیا ابھی عشاہ کی نماز میں کافی دیر تھی میں مسجد میں وضو کرکے بیٹھ گیا اور درود شریف پڑھنے لگا۔ اذان کے بعد عشاہ کی نماز ہوئی اور پھر ذکر شروع ہوگیا۔ ان صاحب نے مجھے اشارے سے پاس بلایا اور ذکر خفی کا طریقہ بتایا۔ سلطان باہو کی کافی” الف اللّه چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہو” ٹیپ ریکارڈر پر چلنا شروع ہو گئی اور سب دل میں اسم ذات کا ذکر کرنے لگے کچھ ہی دیر میں میرے پیر سن ہوگئے اور باقی کے ذکر میی اپنے پیروں کو ہلا ہلا کر جگاتا رہا ۔ نائب صاحب مجھے بار بار کچھ اچھی نظروں سے نہیں دیکھ رہے تھے ۔ ذکر کے بعد چائے کا دور ہوا اور مٹھائی کھلائی گئی۔ میں نے سر سے ٹوپی اتار کر جیب میں رکھ لی تھی اچانک کسی نے میرے سر پر ٹوپی رکھ دی پلٹ کر دیکھا تو نائب صاحب کھڑے تھے کہنے لگے مرشد کے سامنے سر کبھی ننگا نہیں کرتے۔
اگلے جمعرات میں پھر بینک سے ذکر کیلئے پہنچ گیا باقی سب کچھ ویسا ہی تھا تمام ذکر میں توجہ پیروں کو جگانے پر مرکوز رہی باقی ذکر کا کچھ نہیں پتا چلا۔ ذکر کے بعد گفتگو کا سلسلہ چل رہا تھا تو میں گفتگو سننے کے ساتھ دل میں درود شریف پڑھ رہا تھا اچانک ان صاحب نے میری طرف غور سے دیکھا اور سر ہلایا مجھے ایسا لگا جیسے کہہ رہے ہوں شاباش اچھا کررہے ہو۔ وہ صاحب جب اٹھکر چلے گئے لیکن میں نے اس دفعہ ٹوپی سر سے نہیں اتاری کیونکہ میں پچھلے ہفتے والے واقعےکو بھولا نہیں تھا اسی اثناء میں ایک ذاکر سے باتیں کرنے لگا تو اچانک کسی نے پیچھے سے کندھوں کو پکڑ کر میرا رخ پھیر دیا پلٹ کر یکھا تو نائب صاحب کھڑے تھے کہنے لگے مرشد کی طرف پیٹھ نہیں کرتے میں نے بولا صاحب تو جا چکے ہیں تو نائب صاحب بولے مرشد اس وقت ہجرے میں تشریف فرما ہیں اور آپکی پیٹھ ہجرے کیطرف تھی۔
میرے اندر ایک غصہ اور جھنجھلاہٹ کی کیفیت طاری ہوگئی کہ یہ نائب صاحب اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں پہلے مجھ سے پوچھے بغیر میری رپورٹیں نکالتے ہیں جو کے اخلاقی طور پر غلط بات ہے پھر ذکر میں گھوریاں مار تے ہیں کبھی زبردستی سر پر ٹوپی رکھ دیتے ہیں اور کبھی بغیر متوجہ کئے رخ موڑ دیتے ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔