بینک بیتیاں – باسط صاحب (آخری حصہ)

مجھ سے کہنے لگے اب وہ وائوچر بیگ والٹ کے نچلے پورشن میں نہیں رکھیں گے۔ میرے استفسار پر بولے آپ کسی کو بتائے گا نہیں اسٹیٹ بینک میں ہم قمیض شلوار پہنا کرتے تھے مگر یہاں بینک میں پینٹ شرٹ اور نک ٹائی پہننا لازم ہے ۔ کہنے لگے مجھے پتلون میں بیٹھ کر وائوچر رکھنے میں مشکل ہوتی ہے ۔ کل ہی کی بات ہے بیٹھنے میں مشکل ہورہی تھی تو پتلون کی بیلٹ ڈھیلی کر کے بیٹھ گیا جب واپس کھڑا ہو تو پتلون قدموں میں گری ہوئی تھی۔ کہنے لگے اگر سیمی اس وقت آس پاس ہوتی تو سوچئے کیا ہوتا ؟ میں نے کہا باسط صاحب ایسی بات سوچ کر ہی روح کانپ اٹھتی ہے ۔ برائے مہربانی اب آپ وائوچر بیگ خود کبھی مت رکھئے گا یہ کام میں کرلونگا۔ میری اس آفر سے بڑے خوش ہوگئے چہرے پر بچوں جیسی معصوم مسکراہٹ طاری ہوگئی اور گلے میں ہاتھ ڈال کر بولے باس کو یہ بات مت بتائے گا اور کہے گا کہ آپ یہ کام اپنی مرضی سے خود کرنا چاہتے ہیں ۔

بالغوں والے قصوں کو توبہ توبہ کرکے سنتے جاتے تھے اور کرید کرید کر تفصیل بھی معلوم کرتے جاتے ۔ باتوں باتوں میں ایک فضول سا عبرت آمیز قصہ انکو سنایا جس میں حسرت کا پہلو زیادہ تھا کلائمیکس پر پہنچ کر انکی گول گول آنکھیں ڈیلوں سمیت باہر آچکی تھیں چہرے پر تلذذ کی گہری گھٹائیں چھاگئیں اور انکے منہ سے زور سے سسکاریاں بلند ہونے لگیں ۔ قصہ ختم کرکے میں اپنے کام میں مشغول ہو گیا اور باسط صاحب وقت مقررہ پر بستہ لپیٹ کر چلے گئے۔ دوسرے دن مجھ سے کہنے لگے آئیندہ ایسا قصہ مت سنائے گا میں نے پوچھا ایسا کیوں بول رہے ہیں تو بولے قصے کا ایسا اثر ہوا کہ گھر جاکر بھی وہ قصے کا سوچتے رہے اور پھر مجبوراً اپنی زوجہ سے رجوع کرنا پڑا تب جاکر طبیعت ہلکی ہوئی ۔

انہی دنوں زندگی میں پہلی بار بینک کی کلوزنگ دیکھی سال کا آخری دن جو کہ غیر معمولی طور پر سخت سرد بھی تھا ۔ بینک میں ایسی رونق لگی ہوئی تھی جیسے کوئی تہوار ہو ۔ ہر ڈیپارٹمنٹ اپنی کلوزنگ کررہا تھا بینک کا پرافٹ ہمارا ڈیپارٹمنٹ فائنل کرتا تھا لہذا ریجنل مینیجر صاحب بار بار میرے باس کو فون کرکے مختلف ہدایات دے رہے تھے۔ باقی سب ڈیپارٹمنٹ والے اپنا کام ختم کرکے آٹھ نو بجے تک چلے گئے کیونکہ اکثر کے نیو ائیر سیلیبریشن کے پروگرام بنے ہوئے تھے۔ مگر ہمارے ڈیپارٹمنٹ اور آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ نے فجر سے کچھ دیر پہلے اپنا کام ختم کیا۔ صبح ہوئی تو فراز، نعمان، طارق بھائی، باس اور میں سب ملکر بوٹ بیسن ناشتہ کرنے پہنچے ۔ سال کے پہلے دن کی سرد ترین صبح میں وہ گرما گرم ناشتہ اور نرم گرم دوستوں اور محسنوں کا ساتھ ہمیشہ یاد رہے گا۔

ایک دن دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے مینیجر فاطمی صاحب کسی کام سے ہمارے پاس آئے ہوئے تھے اور باتوں باتوں میں مختلف غذائوں کے فوائد پر گفتگو چل نکلی۔ فاطمی صاحب کہنے لگے ہر غذا کے اپنے فوائد ہیں مگر دودھ سے بڑھ کر کوئی فائیدہ مند چیز نہیں ۔ باسط صاحب جو کافی دیر سے غیر معمولی طور پر انکی گفتگو سن رہے تھے اچانک سے بولے مگر شرط یہ ہے کہ وہ دودھ اشرف المخلوقات کا ہونا چاہئے یہ بات بولتے وقت انکی شکل بالکل دودھ پیتے بچے جیسی لگ رہی تھی۔

باسط صاحب میں ایک فطری سادگی اور معصومیت تھی۔ انہوں نے اپنی پروفیشنل زندگی اسٹیٹ بینک کے جھیل جیسے پرسکون ماحول میں گزاری تھی اور اب وہ ہمارے بینک کے تیز و تند دریا جیسے ماحول میں تیرنے کی کوشش کررہے تھے جو کہ ایک لاحاصل کوشش تھی۔

چھے مہینے کی ٹریننگ کے بعد میرا ٹرانفسر دوسری برانچ میں ہوگیا اور اسکے کچھ دن بعد باسط صاحب کا کانٹریکٹ ختم ہوگیا اس دفعہ اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے بھی انکی سفارش نہیں کی اور باسط صاحب خاموشی سے بینک چھوڑ گئے ۔

کچھ عرصے کے بعد میں کسی کام سے کہیں گیا تو ایسا لگا کوئی میرا نام لیکر پکار رہا ہے پلٹ کر دیکھا تو باسط صاحب کو سامنے پایا بڑی گرم جوشی سے ملے اور کہنے لگے سامنے والے بینک میں کیشیئر کی نوکری مل گئی ہے ابھی کچھ دن ہوئے جوائننگ دی ہے ۔ باسط صاحب اور کیشیئر کی جاب میں نے دل ہی دل کہا اللہ خیر کرے کس ظالم نے انکو اس جاب میں پھنسا دیا ہے۔ کیشیئر کا کام باسط صاحب کے بس کا نہیں اس بات کا مجھے بخوبی اندازہ ہوگیا تھا۔ کچھ دن بعد کسی کام سے دوبارہ اسطرف جانا ہوا اور باسط صاحب کا پوچھا تو معلوم ہوا اب وہ یہاں کام نہیں کرتے مزید پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔

کسی جاننے والے سے معلوم ہوا کہ باسط صاحب گھر بیٹھے ہیں طبیعت ناساز رہتی ہے بس گھر سے مسجد ہی جاتے ہیں۔ انکی طبیعت کا سنکر دل سے انکے لئے ڈھیروں دعائیں نکلیں۔ باسط صاحب سے عمر کے بہت زیادہ فرق کے باوجود دوستی ہوگئی تھی اور وہ ہمیشہ مجھ سے بہت محبت سے پیش آتے اور آپ جناب سے بات کرتے تھے۔ آج جب پلٹ کر گزری باتیں یاد آتی ہیں تو باسط صاحب کی پر بہار شخصیت کی یاد چہرے پر ایک اداسی بھری مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے۔