بینک بیتیاں- روحانیت اور سلمان (چوتھا اور آخری حصہ)

جمعہ کے دن میں برانچ سے نکل کر ریجنل آفس پہنچا اور سلمان کو کال کی تو وہ باہر آگیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہاں چلنا ہے تو اس نے شہر کے ایک مشہور شاپنگ ایریا کے کارنر میں بنی مسجد کی طرف چلنے کا بولا۔ میں اس مسجد کے سامنے سے اکثر گزرتا تھا مگر کبھی اس مسجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا ۔ جب ہم مسجد کے سامنے پہنچ گئے تو سلمان نے میری طرف غور سے دیکھا اور کہا یہ کوئی عام مسجد نہیں ہے اور اس مسجد کو حرمین جیسی خصوصیت حاصل ہے ۔ یہ بات میں نے سن تو لی مگر یقین نا کرسکا ۔ سلمان نے اپنی بات جاری رکھی کہنے لگا اس مسجد میں ہر جمعہ کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوتی ہے اور اسہی لئے اسکی کوشش ہوتی ہے کہ جمعہ کی نماز جیسے بھی ممکن ہو اسی مسجد میں ادا کروں ۔
ہم دونوں مسجد میں داخل ہو گئے میں وضو کے لئے آگے بڑھا تو سلمان کہنے لگا تم وضو کرو میں ابھی آتا ہوں ۔ وضو کرنے کے بعد میں مسجد کے صحن میں آکر سنتیں پڑھنے کھڑا ہوگیا ۔ سنتیں پڑھنے کے دوران سلمان بھی میرے برابر میں آکر سنتیں پڑھنے لگا ۔ سنتوں سے فارغ ہوکر میں بیٹھ گیا تو سلمان نے میرے کان میں کہا کہ اس مسجد میں نہایت ادب سے بیٹھوں کیونکہ ہر مسجد اللہ کا گھر ہے مگر اس مسجد کی اہمیت اور مقام جدا ہوتا ہے ۔
اسی اثناء میں جمعے کی خطبے سے پہلےوالی اذان شروع ہو گئی ۔ اس اذان میں پتا نہیں کیا بات تھی ایسے لگا جیسے میری روح کو کسی نے جھنجھوڑ دیا ہو میں نے آنکھیں بند کرلیں اور میرا وجود اذان کی آواز کے ساتھ ہلکا ہونا شروع ہوگیا۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ میرا وجود اذان کی آواز کے ساتھ ساتھ اوپر اٹھتا جارہا ہے مجھے بند آنکھوں سے اپنے نیچے بادل اڑھتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ اذان جب ختم ہوئی تو میرا وجود واپس اپنی جگہ پر آچکا تھا۔ اذان ختم ہونے کے بعد میں نے اپنی آنکھیں کھولیں تو مجھے خیال آیا کہ اگرچہ یہ بہت منفرد تجربہ تھا مگر یہ محض میرا خیال تھا ۔ ابھی میں یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ سلمان نے میرے کان میں کہا کہ اذان کی آواز کے ساتھ بادلوں میں اڑھتے ہوئے کیسا لگا ؟ میں چونک گیا سلمان کو یہ بات کیسے پتا چلی کہ میں اپنے آپ کو بادلوں میں اڑھتا ہوا محسوس کررہا ہوں۔ مجھے خیال آیا شاید سلمان کو بھی ایسا محسوس ہوا ہو۔
اسکے بعد نماز ہوئی اور دعا کے بعد سلام پڑھا جانے لگا سلمان نے میرا ہاتھ پکڑا اور مسجد کے اندرونی ہال میں لے آیا اس وقت تک زیادہ تر نمازی جاچکے تھے اور کوئی تیس چالیس کے قریب لوگ موجود تھے ۔ میں بھی مدھم آواز سے سلام پڑھنے لگا جیسے ہی سلام ختم ہوا سلمان نے مجھے اشارہ کیا کہ چلو واپس چلتے ہیں۔ سلمان پلٹ کر واپس جانے کیلئے مڑا ہی تھا کہ میرے اندر ایک بھونچال آگیا میں سلمان کو روکنا چاہتا تھا اور اسے بتانا چاہتا تھا کہ مجھے رونا آرہا ہے میرے منہ سے بس سلمان کا نام ہی نکل سکا اور میں پھوٹ پھوٹ کر با آواز بلند بچوں کی طرح رونے لگا سلمان نے میری طرف پلٹ کر دیکھا تو اسکے چہرے پر ایک شفقت بھری مسکراہٹ تھی اس نے مجھے سینے سے لگا لیا اسکے منہ سے اللّٰہ سبحانہ وتعالٰی کی شان میں کلمات ادا ہورہے تھے ۔ میری کیفیت یہ تھی کہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیوں دھاڑیں مار کر رو رہا ہوں لوگ مجھے پلٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے ۔ اس وقت میرا وجود دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ایک وجود بس روئے جارہا تھا اور دوسرا وجود اس کے ساتھ کھڑا حیران ہو رہا تھا کہ میں کیوں رو رہا ہوں جبکہ رونے کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے نا ہی مجھے کوئی غم ہے ۔ دوسرا وجود پہلے وجود کو سمجھا رہا تھا مگر پہلا وجود بس روئے جارہا تھا اسکو اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کے سب لوگ اسے دیکھ رہے ہیں ۔ سلمان نے کچھ دیر مجھے رونے دیا پھر میرا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آیا اب میں دھیمی آواز سے روئے جارہا تھا۔ سلمان نے کہا چلو واپس چلیں۔ واپسی میں بھی میں گاڑی چلاتے ہوئے روئے جارہا تھا اور دل ہی دل میں پریشان تھا کہ میں اس حالت میں برانچ واپس کیسے جائوں گا۔
رینجل آفس کے سامنے پہنچ کر سلمان خاموشی سے اتر گیا میں نے جیسے ہی گاڑی واپس برانچ جانے کیلئے أگے بڑھائی میرے رونے کو بھی بریک لگ چکا تھا ۔

اس واقعے کے بعد میں نے تقریباً دو ہفتے سلمان کو فون نہیں کیا۔ ایک دن کچھ کام کے سلسلے میں میری ریجنل آفس میں بات ہورہی تھی تو مجھے معلوم ہوا کہ سلمان بینک کی جاب چھوڑ کر چلا گیا ہے ۔ میں نے فوراً سلمان کے موبائل نمبر پر کال کی تو اسکا نمبر بند جارہا تھا۔ سلمان کا اور تو کوئی دوست نہیں تھا آصف کو بھی اسکے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ میں نے سلمان کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر اسکا کوئی سراغ نہیں ملا۔ کچھ عرصے کے بعد معلوم ہوا سلمان ملک سے باہر چلا گیا ہے مگر یہ نہیں پتا کس ملک گیا ہے ۔

مجھے نہیں پتا سلمان روحانیت میں کس مقام پر تھا یا کسی مقام پر تھا بھی کہ نہیں مگر میں نے جو وقت سلمان کے ساتھ گزارا اور زندگی کے کچھ تجربات ہوئے ان سے میرا زندگی کو گزارنے کا طریقہ ضرور بدل گیا۔ آج بھی جب میں ان گزری ہوئی باتوں کو سوچتا ہوں تو خواب و خیال کی باتیں لگتی ہیں۔

اختتام۔۔۔۔۔۔